پندرہ مئی کو فلسطینی ہر سال ‘یوم نکبہ’ یعنی وطن چھن جانے اور ملک پر ایک غیر قوم کے قابض ہونے کا دن مناتے ہیں۔ یہ دن 15 مئی سنہ 1948ء سے منایاجا رہا ہے اور اب اس سلسلے کی 71 ویں کڑی یعنی 2019ء ہے۔ آج اندرون فلسطین اور بیرون ملک مقیم فلسطینی چاہے وہ پناہ گزین ہوں یا دوسرے فلسطینی ہوں یوم نکبہ منا رہے ہیں۔
اس حوالے سے مرکز اطلاعات فلسطین نے النکبہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بعض فلسطینیوں کے تجربات اور ان کی آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔
اسی ضمن میں بزرگ فلسطینی محمود محمود ابو ایمن نے النکبہ سے متعلق اپنی تلخ یادیں بیان کیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شمالی فلسطین کے ترشیحا قصبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پندرہ مئی سنہ 1948ء کو ان کی عمر چھوٹی تھی مگر انہیں سب کچھ اچھی طرح یاد ہے۔ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے برطانوی حکومت اور فوج نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں فلسطین سے فلسطینیوں کو نکالنے اور یہودیوں کو بسانےمیں برطانوی فوج کا ہاتھ تھا۔
جب عرب محافظ فورس کے پاس اسلحہ ختم ہوگیا اور اس کے مزاحمت کار فلسطینی علاقوں سے نکل گئے تو ان کے گائوں میں لوگوں کے پاس صرف 12 بندوقیں تھیں۔ ان کا مقابلہ ایک طرف مسلح صہیونی جتھوں کے ساتھ تھا اور دوسری طرف ایک منظم برطانوی فوج جو ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھی۔ برطانوی فوج ہر غیر یہودی کا تعاقب کرتی اور بغیر کسی وجہ کے گولیاں چلا کر فلسطینیوں کو شہید کردیا جاتا۔
ایک سوال کے جواب میں ابو ایمن نے کہا کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں کے تہہ خانوں میں چلے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ یہاں محفوظ رہیں گے مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ برطانوی فوج کے پاس جنگی طیارے ہیں جو فضاء سے لوگوں کے گھروں پر بم گراتے ہیں۔ اس طرح سیکڑوں فلسطینی گھروں پر بم گرائے جانے کے باعث شہید ہوگئے۔
الحاج ابو ایمن نے کہا کہ میں اس وقت پانچ سال کا تھا جب برطانوی فوج نے ان کے مکان پر نصف ٹن وزنی بم گرایا۔ اس بم کے پھٹنے سے ان کے خاندان کے سات افراد شہید ہوگئے۔ ان میں خواتین اور بچے تھے جب کہ ہمارے مکان کے اطراف میں کئی فلسطینی جن میں العبد عمر قبلاوی کے مکان میں روپوش تھے مکان گرنے سے شہید ہوگئے۔
ترشیحا سے ھجرت
ایک سوال کے جواب میں الحاج ابوایمن نے کہا کہ جب عرب مجاھدین کے پاس اسلحہ ختم ہوگیا تو ہمارے پاس مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہم وہاں سے پیدل لٹے پھٹے قافلوں کی شکل میں شمالی فلسطین کے علاقے ترشیحا سے لبنان کے بنت جبیل کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہمارے پاس اپنے پیاروں کی تدفین کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب ہم لوگ پیدل چل کر گائوں سے دور پہنچ گئے تو رات کا وقت ہوگیا۔ ہمارے بعض مرد واپس آئے اور اور انہوں نے رات کی تاریکی میں کچھ قیمتی سامان مین میں گڑھے کھود کر دبادیا اور گندم کا جتنا جتنا ذخیرہ وہ اٹھا سکتے تھے ساتھ لیے لیا۔ مگروہ خوراک کا سامان بھی زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن تک رہتا۔
ہم فلسطین سے نکل کر لبنان پہنچ گئے اور ایک سے دوسرے شہر میں سفرکرتے رہے۔ ہم نے پہلی بار ن شہروں کے نام سنے۔ ان میں بیروت،صیدا، طرابلس، حمص اور حماۃ سے گذرکر شام کے شمالی شہر حلب جا پہنچے۔
مشکلات سے بھرپور
محمود محمود ابو ایمن نے کہا کہ طویل سفر نے ہمارے حوصلے پست نہیں کیے مگر اس سفر نے ہماری زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہم آج بھی اپنے آبائی شہروں عکا، یافا، ترشیحا اور عسقلان کو نہیں بھولے ہیں۔ صبر
واستقامت کی داستان آج بھی جاری ہے۔
سنہ 56 کی جنگ اور امید کا خاتمہ
الحاج ابو ایمن نے کہاکہ ہمیں وطن واپسی کی اس وقت تک امید تھی جب تک سنہ 1956ء کی جنگ نہیں ہوگئی۔ اس جنگ کے بعد تمام فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی امید دم توڑ گئی۔ اس کے بعد ہم نے جہاں جہاں قیام کیا تھا وہاں پر چھوٹے چھوٹے مکانات اور کمرے بنا شروع کر دیے۔
فلسطینی پناہ گزینوں نے کنوئوں کی کھدائی اور کاشت کاری سمیت دیگر کام کاج شروع کر دیے۔ بچوں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ بعض فلسطینیوں نے شام کے شہر حلب میں جگہ کی اجازت حاصل کرکے وہاں چھوٹے موٹے مکانات تعمیرکرنا شروع کیے۔
سنہ 2018ء میں ایک اور ہجرت
الحاج محمود ابو ایمن نے کہا کہ سنہ 2018ء کو ایک بار پھر فلسطینی پناہ گزینوں کوایک بار پھر ھجرت کا سامنا تھا۔ ہم ایک مہاجر کیمپ سے نکلتے تو دوسرے میں جاتے۔ آج ہم ایک بار پھر بےگھر ہیں۔ ایسےلگتا ہے کہ دشمن ہمیں کہیں آباد نہیں ہونے دیتا۔ ہم ایک سےدوسری ہجرت کرتے ہیں۔ ھجرت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ فلسطینیوں کے مقدر میں کیوں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بار بار کی ہجرت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہماری منزل ہمارا اپنا وطن ہی ہے اور ہمیں واپسی کی امید ترک نہیں کرنی بلکہ حق واپسی کےحصول کے لیے ہرسطح پر اپنی جدو جہد جاری رکھنی ہے۔