فلسطین میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسرائیلی عدالت سے معصوم فلسطینی خاندان کو زندہ جلانے میں ملوث دہشت گرد کوبری کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ کلب برائے اسیران کے چیئرمین اور سرکردہ انسانی حقوق کارکن قدورہ فارس نے کہا ہے کہ دوابشہ خاندان کے قاتل دہشت گرد کو بری کرنا قتل کے جرم میں برابر کا شریک ہونا ہے۔ صہیونی ریاست کی عدالت نے دوابشہ خاندان کے قاتل کو بری کر کے یہودی آباد کاروں کو فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا نیا حوصلہ اورانہیں کلین چٹ دے دی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق کلب برائے اسیران کے چیئرمین قدورہ فارس نے بیان میں کہا کہ دوابشہ خاندان کو شہید کرنے میں ملوث دہشت گرد کو بری کر کے فلسطینیوں کے قتل کا جواز فراہم کیا ہے۔ فلسطینی خاندان کے اقراری مجرم قاتل کو بری کر کے صہیونیوں کو فلسطینیوں کے قتل عام کا سرٹیفکیٹ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست کی نام نہاد عدالتیں مجرموں، قاتلوں اور دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
قدورہ فارس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم اور صدرسے لے کر نچلی سطح تک ہر اہلکار اور تمام ادارے فلسطینیوں کے قتل کے سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک صہیونی ریاست موجود ہے اس وقت تک فلسطینیوں کا قتل عام اور یہودی آبادکاروں کی دہشت گرد جاری رہے گی۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی مرکزی عدالت نے عدالتی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند برس قبل غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں دوما کے مقام پر ایک نہتے فلسطینی خاندان کو رات کی تاریکی میں گھرمیں بند کر کے زندہ جلا کر شہید کرنے میں ملوث مجرم کو بری کر دیا۔
عبرانی نیوز ویب سائیٹ ‘واللا’ کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل اور فلسطینی خاندان کے قاتل کے وکیل کے درمیان مجرم سے دوابشہ خاندان کے قتل کا جرم ساقط کرنے سے اتفاق کیا اور اس کے بعد مجرم کو بری کرتے ہوئے اس پر صرف اس جرم کی منصوبہ بندی کا الزام باقی رکھا گیا ہے۔
فلسطینی خاندان کے بے دردی کے ساتھ اجتماعی قتل کے جرم میں ملوث مجرم کو زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ عدالت پانچ سال سے بھی کم وقت کی قید کی سزا مقرر کرے۔
خیال رہے کہ فلسطین میں یہودی دہشت گردوں کے ایک گروپ وابستہ دہشت گرد نے چند سال قبل غرب اردن کے شہر نابلس میں دوما کے مقام پر ایک فلسطینی خاندان کو گھر میں آگ لگا کر شہید کر دیا تھا۔ اس واقعے میں دوابشہ خاندان کے میاں بیوی اور ایک شیرخوار شہید ہوگئے تھے جب کہ ان کا ایک چار سالہ بچی بری طرح جھلس گیا تھا۔
عبرانی میڈیا کے مطابق عدالت میں فلسطینی خاندان کے قتل کے خلاف پیش کردہ شواہد ناکافی ہیں جس سے ملزم پر جرم ثابت کرنا مشکل ہے۔ اگرچہ مجرم خود بھی عدالت میں اقبال جرم کرچکا ہے۔
مجرم کو عدالت نے گذشتہ برس جولائی میں جیل سے رہا کر دیا تھا جس کے بعد اسے گھر پر نظر بند رکھا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ مجرم سے زیادہ تر اعترافات نفسیاتی دبائواور تشدد سے لیے گئے تھے۔
فلسطینی خاندان کو زندہ جلائے جانے کا واقعہ جولائی 2015ء کو پیش آیا تھا۔