اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے صہیونی دشمن تک اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔ اب یہ قابض اسرائیل پر منحصر ہے کہ وہ فلسطینیوں کا پیغام سمجھتا ہے یا نہیں۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے فضائی حملے رُکنے کے بعد حماس کے رہ نما اسماعیل ہنیہ عوام میں نمودار ہوگئے ہیں اور انھوں نے غزہ میں اپنے تباہ شدہ دفتر کا ملبہ دیکھا ہے۔ مصر کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیلی فوج نے غزہ پر فضائی حملے روک دیے ہیں اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے بھی اسرائیلی علاقوں کی جانب راکٹ باری روک دی ہے۔ جماعت کے تباہ شدہ دفتر کے دورے کے دوران بات کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ نے 30 مارچ کو یوم الارض کے موقع پر پوری قوم کو سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کے لیے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کی اپیل کی۔
اسرائیلی فوج نے سوموار کو راکٹوں کے جواب میں فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا اور اس نے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں حماس اور دوسری تنظیموں کی تنصیبات کو بمباری میں نشانہ بنایا ہے۔ تاہم ان حملوں میں کسی فلسطینی کے جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ بدھ کے روز اسرائیل کے جنوبی علاقے میں اسکول دوبارہ کھل گئے تھے اور غزہ میں بھی اسکولوں میں تدریسی سرگرمیاں دو بارہ شروع ہوگئی ہیں۔غزہ میں شاہراہوں پر بھاری ٹریفک دیکھا گیا ہے ۔
حماس کے رہ نما اسماعیل ہنیہ اپنے کسی خفیہ مقام سے نمودار ہوکر عوام کے سامنے آئے ہیں اور انھوں نے اپنے تباہ شدہ دفتر کو ملاحظہ کیا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ قبضے کو کسی مخمصے کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے عوام کے عزم کو توڑ سکتا ہے‘‘۔اسرائیلی فوج نے سوموار کو ان کے دفتر اور دوسری عمارتوں پر فضائی بمباری کی تھی۔
غزہ پر اسرائیل کی مسلط کی جانے والی اس نئی جنگ کے بادل عارضی طور پر چھٹ تو گئے ہیں لیکن جنگ کا خطرہ مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے کیونکہ اسرائیل میں 9 اپریل کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہورہے ہیں اور وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ان میں کامیابی کے لیے سکیورٹی کے ایشو کو اولیت دے رہے ہیں۔ان کا اس مرتبہ ایک سابق اسرائیلی جنرل کے زیر قیادت اتحاد سے سخت مقابلہ ہے ۔اس لیے وہ فلسطینیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرکے انتہا پسند اسرائیلی ووٹروں کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔