اتوار کے روز فلسطین کے مقبوضہ مغربی کناے کے شمالی شہر سلفیت میں ایک مزاحمتی آپریشن میں تین صہیونی ہلاک ہوگئے۔ اسرائیلی فوج نے اس حملے کا الزام ایک 19 سالہ فلسطینی نوجوان عمر ابو لیلیٰ کو ٹھہرایا ہے اور اس کی تلاش کے لیے غرب اردن کو فوج چھائونی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اس وقت عمر ابو لیلیٰ جہاں اسرائیلی فوج کے ایک خوف کی علامت ہے اور ہرطرف اس کی تلاش جاری ہے تو دوسری طرف وہ فلسطینی عوام اور مزاحمتی حلقوں میں ایک ہیرو اور بہادر فرزند قوم کے طور پر ہو رہا ہے۔ اس نے محض انیس سال کی عمر میں اپنے وطن پر قابض صہیونیوں کے خلاف مسلح کارروائی کرکے دشمن کو یہ سبق دیا ہے کہ فلسطینی قوم کی نئی نسل میں مزاحمت اور آزادی کے لیے مرمٹنے کا جذبہ پوری طرح موجود ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل صہیونی فوجیوں پر اسی طرح کے طاقت ور حملے کرنے والے محمد جرار، اشرف نعالوۃ اور صالح البرغوثی بھی طویل تعاقب کے بعد جام شہادت نوش کر گئے۔ ان کی تحریک مزاحمت کو عمر ابو لیلیٰ نے ایک بار پھر زندہ کیا ہے۔
بیس سالہ 20 اشرف نعالوۃ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عمر ابولیلیٰ نے صہیونیوں پر حملے کے بعد بہ حفاظت فرار کا راستہ اختیار کیا۔ اس واقعے نے فلسطینی قوم کی حق واپسی اور آزادی کے حصول کے لیے جدو جہد کو پھر سے تازہ کر دیا۔ فلسطینی قوم اپنے قومی تشخص اور مقدسات کے دفاع کے لیے مر مٹنے کو تیار ہیں۔ یہ وہ شعور ہے جو اب فلسطینیوں کی نئی نسل میں منتقل ہو رہا ہے اور اسی شعور سے غاصب صہیونی خائف ہیں۔
یہاں یہ سوال اہم ہے کہ آیا عمر ابو لیلیٰ کو عمر کے اس حصے میں آخر ایسا اقدام کیوں کرنا پڑا؟ اس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ اقدام کیا ہے۔ اس نے جو بھی منصوبہ بنایا وہ بہت پیچیدہ اور صہیونی ریاست کے سیکیورٹی منصوبوں سے آگے چلا گیا اور ان سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔
اس کا جواب سیدھا اور سادہ ہے۔ وہ یہ کہ وطن سے محبت اور اس کے ساتھ تعلق نے عمر کو اپنے وطن پر غاصبوں کے خلاف لڑ مرنے پر مجبور کیا۔ بہت سے ایسے سوالات عمر کے ذہن میں بھی پیدا ہوئے ہوں گے مگر اس نے ان تمام سوالوں کا جواب دینے کے لیے عملی کارروائی کی۔ بندوق کی گولیوں اور چاقو کے وار سے تین صہیونیوں کی ہلاکت اور خود بچ نکلنا اس کا جواب ہے۔
جب اس نے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہمیں صہیونی غزہ، غرب اردن اور القدس میں بغیر کسی جرم کے کیوںقتل کردیتے ہیں۔ دنیا کی آباد اور ترقی یافتہ اقوام کی طرح فلسطینیوں کو وہ حقوق کیوں حاصل نہیں ہیں۔ ہمارے ایک شہرے سے دوسرے شہر تک رابطہ کیوں نہیں ہو پاتا۔ ہم اپنے ہی ملک میںایک غاصب اور غیر قوم کے رحم وکرم پر کیوں ہیں۔ مسجد اقصیٰ جو ہمارا پہلا قبلہ ہے کی مسلسل بے حرمتی کیوں کی جا رہی ہے۔ غزہ کا محاصرہ کیوں اور اور غرب اردن میں یہودی آباد کاری کیوں کی جا رہے۔
ابو لیلیٰ نے مزاحمت کا وہ اسلوب اختیار جو اس سے قبل اشرف نعالوۃ، اس سے قبل احمد جرار، باسل الاعرج اور صالح البرغوثی نے اپنایا۔ اس وقت عمر ابو لیلیٰ کا نام ہر فلسطینی کی زبان پر ہے اور اسے کوئی برا نہیں کہتا۔ اس نے جو کیا وہ بہت اچھا کیا۔ اس کی تلاش میں صہیونی فوج اور اس کے تمام سیکیورٹی اور انٹیلی جنس مشینری سرگرم ہے۔
اس کے خاندان کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس کے بھائیوں اور والد کو غیرمسبوق تشدد کا سامنا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے عمر البرغوثی کا مکان مسمار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری طرف صہیونی ریاست نے غرب اردن میں یہودیوب کے لیے 840 نئے مکانات کی تعمیر کا اعلان کر دیا۔