اسرائیلی زندانوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں میں 22 ایسی خواتین بھی قید ہیں جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، جو اپنی مائوں سے ملنے کو ترس گئے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی زندانوں میں قید خواتین کے 86 بچے اور بچیاں ہیں جو اپنی مائوں کی منتظر ہیں۔ ان میں سے 46 خواتین ‘دامون’ نامی ایک بدنام زمانہ حراستی مرکز میں قید ہیں۔
فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے’کلب برائے اسیران’ کے مطابق یہ اعداد و شمار 21 مارچ کو مائوں کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید خواتین کو ان کے بچوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ اسیرات کو ان کے بچوں کے ساتھ ٹیلیفون پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
حیفا شہر کی نسرین حسن چھ سال سے اسرائیلی جیل میں قید ہے اور اس کا شوہر اور سات بچے بچیاں غزہ کی پٹی میں بند ہیں۔ حیفا میں موجود اس کی بہنوں کو بھی نسرین سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
رپورٹ کے مطابق نسرین کا سب سے چھوٹا بیٹا 8 ماہ کا ہے جب کہ بڑی بیٹی 11 سال کی ہے۔ ان کی پرورش اور نگہداشت ان کے والد کرتے ہیں۔
اسی طرح القدس کی فدویٰ حمادۃ 2017ء سے قید ہیں اور ان ہیں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے پانچ بچے ہیں جن میں سے چھوٹے کی عمر چارماہ ہے۔ الخلیل کی پانچ بچوں کی ماں لمیٰ خاطر کا سب سے چھوٹا بیٹا دو سال ک اور الرملہ کی بسلم شرایعہ کے تین میں سے چھوٹے بچے کی عمر ڈیڑھ سال ہے۔
کلب برائے اسیران کے مطابق ریمون جیل میں قید امینہ محمود عودہ کو اس کی اکلوتی بیٹی سے 2017ء سے ملنے کی اجازت نہیں۔