فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے رد عمل نے جہاں فلسطینیوں میں جذبہ جہاد اور تحریک آزادی کے لیے مرمٹنے کے جذبات پیدا کیے وہیں فلسطینیوں میں شاعر اور مزاحمتی شاعری کرنے والے شاعر بھی پیدا کیے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں 30 مارچ 2018ء سے جاری تحریک حق واپسی کو جلا بخشنے کے لیے جہاں ایک طرف فلسطینیوں نے اپنے خون سے اس تحریک کی آبیاری کی ہے وہیں ایک نوجوان اور ابھرتے ہوئے شاعر نے اس تحریک کو ادب کی دنیا میں زندہ کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق غزہ میں تحریک حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی کے نوجوان شاعر علی السماک نے نوجوانوں میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ انہوں نے شعرو سخن کے میدان میں حق واپسی کو آگے بڑھایا۔ فلسطینی مظاہرین کی مشکلات اور انہیں درپیش خطرات کو اشعار میں منفرد پیرائے میں پیش کیا ہے۔
ہرجمعہ کو فلسطینی شہریوں کے درمیان علی السماک بھی مشرقی یا شمالی غزہ میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اشعار سے نوجوانوں کے خون گرماتے ہیں۔ وہ ہرجمعہ کو ہونے والے مظاہروں میں ایک نئے موضوع پر اپنا قصیدہ، غزل یا نظم پیش کرتے ہیں۔ جنگ، اسرائیلی بمباری، فلسطینیوں کی شہادتیں، احتجاجی خیمے اور فلسطینیوں کی محاذ پر ریلیاں ان کا موضوع سخن ہوتے ہیں۔
اپنی شاعری میں وہ فلسطین کے قومی ایشوز کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ نوجوانوں اور طلباء کی فرمائش پربھی اشعار بیان کرتے ہیں۔
مارچ اور ٹیلنٹ
غزہ میں عظیم الشان حق واپسی احتجاجی مارچ کو ایک سال ہوا ہے اور علی السماک نے اپنی شاعری کے ذریعے اسے جلا بخشنے کی کوشش کی ہے مگر علی نے شاعری بہت پہلے شروع کردی تھی۔ کم عمری میں انہوں نے شاعری شروع کردی تھی۔ وہ ہر جمعہ کو غزہ اور شمالی فلسطین کی سرحد پر جمع ہونے والے فلسطینی مظاہرین کے سامنے اپنا کوئی نیا قصیدہ یا اشعار کا مجموعہ پیش کرتے ہیں۔
مظاہرین بھی ہردفعہ علی السماک اور اس کے جذبات کو مہمیز دینے والے اشعار کے منتظر ہوتے ہیں۔ علی السماک ہر جمعہ کو نئے اشعار کے ساتھ فلسطینی مظاہرین میں صف اول میں موجود ہوتے ہیں۔
علی السماک اب ایک صاحب دیوان شاعر بن چکے ہیں۔ انہوں نے غزہ کے محاصرے کے حوالے سے اشعار کو معین بسیسو سے مستعار لیا۔ ان کے’غربا’ قصیدے کو فیروز نے گایا جس میں انہوںنے اسیران اور حق واپسی کو موضوع بنایا ہے۔
ان کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ خاموشی گواہی دیتی ہے اور حقیقت خود بے نقاب ہوتی ہے۔ بزدلی غلام بناتی اور ہیرو وہ ہے جس دشمن کا گریبا پکڑے، یہودیوں کی اولاد ظلم کی مرتکب اور عداولت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آزادی کی منزل قریب تر اور نافرمانوں کوآخر کار جھکنا پڑے گا۔
بچے بندوقوں کے نشانے پر
گذشتہ ایک سال کے دوران علی السماک نے غزہ میں ہونے والے مظاہروں میں ہر ہفتے باقاعدگی کے ساتھ ریلیوں میں شرکت کی۔ وہ 50 ہفتوں تک مظاہروں میں شرکت کرتے رہے۔ اس دوران ان کے چچا زاد عزالدین السماک کواسرائیلی فوجیوں نے گولیوں سے بھون ڈالااور وہ جام شہادت نوش کرگئے۔اسی طرح ان کے ایک کم عمر دوست محمود النباھین کو بھی شہید کردیا گیا۔ ان دونوں بچوں کی شہادت نے علی السماک کو بچوں پر صہیونی مظالم پرآواز بلند کرنے کا موقع فراہم کیا۔
عزالدین السماک کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ "دشمن ایک بچے کی غلیل سے ڈر گیا ۔ یہاں یہ جم غفیر آزادی کے لیے جمع ہے اور اس سے آزادی سے کم کوئی قیمت قبول نہیں”۔
علی السماک کا کہنا ہے کہ فلسطینی قوم مزاحمت کے کلچر کی عادی ہے۔ فلسطینیوں کو تحریک آزادی سے محبت ہے۔ ہر بچہ، بڑا، مرد، عورت بزرگ آزادی پر فدا ہے۔