اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں اور ان کے اقارب کے درمیان میل ملاقات کوئی آسان نہیں۔ فلسطینیوں کو صہیونی زندانوں میں قید اپنے پیاروں سے ملاقات کے لیے انتہائی مشکل اور نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو پیاروں سے ملاقات جان سے کھیلنے کے مترادف ہوتی ہے۔ یہ مشکلات نہ غزہ کی پٹی کے شہریوں کو درپیش ہیں بلکہ غرب اردن اور فلسطین کے دوسرے شہروں کے فلسطینیوں کو بھی درپیش ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے اسیران سےشوق ملاقات کی مشکلات کی تفصیلات پرمبنی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔
حال ہی میں ایک فلسطینی شہری محمد غسان ذوقان نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ‘فیس بک’ پر پوسٹ ایک بیان میں لکھا کہ وہ اسرائیلی جیل قید اپنے والد سے ملنے گیا تو اسے 14 گھنٹے مسلسل انتظارمیں رکھا گیا۔ صرف چالیس منٹ کی ملاقات کے لیے فلسطینیوں کو کئی کئی گھنٹے انتظار ، پریشانی اور خوف کے عذاب سے گذرنا پڑتا ہے۔
ذوقان کو اپنے والد 61 سالہ وعالد اور یونیورسٹی کے پروفیسر غسان ذوقان سے ملنے گیا جو کئی ماہ سے ‘ھداریم’ نامی ایک حراستی مرکز میںقید ہیں۔ ان کےایک بھائی مجد جیل میں پابند سلاسل تھے جنہیں دو ماہ پیشتر رہا کیاگیا جب کہ تیسرے بھائی مسلسل پانچ دن سے پابند سلاسل ہیں۔
پروفیسر ذوقان کو گذشتہ برس جولائی میں حراست میں لیاگیا تھا۔ انہیں بدنام زمانہ ٹارچر سیل ‘بتاح تکفا’ میں رکھا گیا جہاں انہیں کئی روز تک اذیت ناک تشدد کے بعد ھداریم جیل میں منتقل کردیاگیا۔
محمد کا کہنا ہے کہ چالیس منٹ کی ملاقات کے لیے وہ اتنے تھک گئے کہ ان کے لیےانتظار کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد گرین لائن کی ایک گذرگاہ سے گذرنے کی اجازت دی گئی مگر وہاں پر تلاشی کی آڑ میں اس کی شناخت پریڈ کی گئی۔ یہی تماشا جیل کے گیٹوں پر لگایا گیا۔ تاہم جیسےجیسے صہیونیوں کی سختیاں بڑھتی گئیں۔ ان کا جذبہ اور شوق ملاقات بھی بڑھتا گیا۔
درد ناک واقعات
کفر قلیل کے اسیرا ابراہیم عامر سے ملنے والوں کی مشکلات بھی محمد غسان ذوقان سے ک نہیں۔ اس کے اقارب کو باربار صہیونی جیل کے دروازے تک لایا جاتا ہے مگر نام نہاد سیکیورٹی کی آڑ میں انہیں گھنٹوں اذیت ناک انتظار کے بعد ملاقات کرائے بغیر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
اسیر کے والد کا کہنا ہے کہ صہیونی حکام کی طرف سے ان کے خاندان کے تمام افراد پر ایک ماہ میں ایک بار سے زیادہ اسیر سے ملاقات پر پابندی عاید ہے۔ باربار کی ملاقات کی ناکام کوشش کے بعد بھی صہیونی حکام ان کے جذبے کو سرد نہیں کرسکے ہیں۔
سابق اسیر مفید جلغوم کا کہنا ہے وہ اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل تھے تو ان کی والدہ انتہائی مشکل سے بیساکھیوں کےسہارے چل کر ملاقات کے لیے آتے مگر صہیونی حکام اسے پہلے تو انتظار کی طویل مصیبت سے گذارتے اور اس کے بعد شیشے کے پچھے انٹر کام کے ذریعے بات کرنے کی اجازت دی جاتی۔