حال ہی میں پولینڈ کے صدر مقام ‘وارسا’ میں مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک کے مندوبین سمیت 60 ملکوں کے وفود نے شرکت کی۔ اس موقع پر یمن کے وزیر خارجہ خالد الیمانی نے شرکت کی اور یہ کہا گیا ہے کہ وہ سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر سے ملاقات کریں گے۔
اس کانفرنس میں اسرائیلی وزیراعظم اور فلسطینی بچوں کا قاتل بنجمن نیتن یاھو بھی بڑےفخر اور طمطراق کے ساتھ شریک تھا۔ اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ ‘میں اس اجتماع کو تاریخ ساز اور اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات کے باب میں فیصلہ کن قرار دیتا ہوں۔ ان کے اس بیان پر وہاں پرموجود عرب رہ نمائوں جن میں سعودی اور یمنی وزیرخارجہ بھی شامل تھے نے تالیاں بجا کر نیتن یاھو کے بیان کی داد دی۔ یہ عرب حکمرانوں کی اجتماعی دانش یا سیاسی سوچ کی عکاسی کا ایک اظہار ہے مگر عرب ممالک کے عوام صہیونی ریاست کے ساتھ ہرطرح کے تعلقات اور دوستانہ مراسم کے قیام کے خلاف ہیں۔ عرب اقوام اسرائیل کوخطے میں ‘کینسر’ کا پھوڑا قراردیتے ہیں اور وہ یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں۔
وارسا کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیراعظم سے عرب رہ نمائوں کی ملاقاتوں کے مناظر سامنے آگئے مگر کانفرنس کے دوران کئی لیڈر نیتن یاھو سے ملتے ہوئے کیمروں سے بچنے کی کوشش کرتے دکھائی دیئے۔ سلطنت اومان کے وزیر خارجہ ایک طرف نیتن یاھو سے ملنے کو بے تاب اور دوسری طرف کیمروں میں آنے سے خائف بھی تھے مگر بالآخر کیمرے کی آنکھ نے اومانی وزیرخارجہ اور نیتن یاھو کی ملاقات کو محفوظ کرکے دنیا تک پہنچا دیا۔ اومانی وزیر خارجہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ نیتن یاھو کے ساتھ ان کا اچانک سامنا ہوگیا۔
ایک اسرائیلی صحافی اور کیمرہ مین جو اومانی وزیر خارجہ یوسف بن علوی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اس تاک میں تھے کہ وہ کس لمحےنیتن یاھو کی دست بوسی کرتے ہیں۔
وارسا کانفرنس میں نیتن یاھو اور یمنی وزیرخارجہ خالد الیمانی کو ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھے دیکھا گیا۔
تاریخ سازی کا دعویٰ
وارسا کانفرنس کے جلو میں سعودی شہزادےفیصل الترکی کا ایک مزاحیہ بیان بھی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا۔ ایک اسرائیلی صحافی کا ان سے کانفرنس کے دوران سامنا ہوا۔ سے دیکھ کر فیصل الترکی مسکرائے اور صحافی کو تجویز دی کہ وہ کسی عرب لڑکی کے ساتھ شادی کرلیں۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر بھی گردش کرتی رہی کہ وارسا کانفرنس میں سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ عادل الجبیر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے ملاقت کریں گے، تاہم ان کی ملاقات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ البتہ بعض ذرائع یہ بتاتے ہیں ان کی نتین یاھو کے ساتھ ان کیمرہ مختصر ملاقات ہوئی تھی۔
اناطولیہ نیوز ایجنسی کے مطابق کانفرنس کے دوران جب نیتن یاھو کا مائیک فنی خرابی کا شکار ہوا تو اس کے قریب بیٹھے یمنی وزیرخارجہ خالد الیمانی نے اپنا مائیک انہیں پکڑا دیا۔
اس واقعے کی تفصیلات امریکی صدر کے معاون خصوصی جیسن گرین بیلٹ نے ایک ٹویٹ میں کیا جو اس وقت اجلاس میں شریک تھے۔ انہوںنے لکھا کہ’دل کشا لمحہ، نیتن یاھو کا مائیکرو فون کام نہیں کررہا تھا تو یمنی وزیرخارجہ خالد الیمانی نے اپنا مائیک نیتن یاھو کو دیا۔
امریکی عہدیدار نے خالد الیمانی کے اس اقدام کو ‘یمن ۔ اسرائیل تعلقات کے باب میں اہم پیش رفت قرار دیا۔ بعد میں جب ان کی تصاویر سامنے آئیں تو یمنی عوام نے خالد الیمانی کے اس اقدام کے خلاف سخت احتجاج کیا۔
گرین بیلٹ نے لکھا کہ یہ حیران کن ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو یمن، اومان، امارات قطر اور بحرین کے وزراء خارجہ کے قریب بیٹھے۔ انہوںنے کھل کر علاقائی مسائل پر بحث میں حصہ لیا۔
اسرائیل سے دوستی نا منظور
ایک طرف پولینڈ کے شہر وارسا میں ہونے والی مشرق وسطیٰ کانفرنس میں عرب لیڈروں کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے ملاقات کے لیے لپکتے دیکھا گیا تو دوسری طرف عرب ممالک کے عوام اور گلے کوچوں کے مناظر بھی دیکھے گئے۔ عرب حکومتوں کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی دوڑ اور عوام کی جانب سے اس کی سختی سے نفی نے واضح کردیا ہے کہ عرب دنیا کے عوام صہیونی ریاست کےساتھ ‘نارملائزیشن’ کو قبول نہیں کرتے۔ عوامی طبقات اب بھی صہیونی ریاست کو کسی صورت میںقبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام یہ سمجتھے ہیں کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام کے قلب میں کینسر کا پھوڑا ہے جو تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔
مصری صحافی عبدالفتاح فاید نے ‘فیس بک’ پر ایک بیان میں لکھا کہ’وارسا کانفرنس میں عرب حکمرانوں کے اسکینڈل تصور سے زیادہ ہیں۔ وہ روٹیاں کھاتے اور نیتن یاھو کے ساتھ گپیں لگاتے۔ ان حکمرانوں نے اپنے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ نیتن یاھو کے ساتھ امن کی مالا جپنے والےاپنی عوام پر گولیاں چلاتے ہیں۔ یہ کانفرنس نیتن یاھو کو عرب حکمرانوں کے ساتھ ایک میز پر بٹھانا تھا۔ یہ کوئی فیصلہ ساز کانفرنس نہیں تھی۔
بی بی سی عربی کے نامہ نگار نے لکھا کہ عرب اور اسرائیلی لیڈر سنہ 1990ء کی میڈریڈ کانفرنس سے اب تک ایک میز پر بیٹھتے آئے ہیں۔
فلسطینی خاتون نے مزاحیہ انداز میں لکھا کہ خطرناک امر یہ ہے کہ اب کی بار عرب لیڈر اعلانیہ نیتن یاھو کے ساتھ بیٹھے۔
تجزیہ نگار مامون ابو عامر کا کہنا ہے کہ نتین یاھو عرب حکمرانوں کی مسکراہٹوں کو اپنی انتخابی جیت کے لیے استعمال کررہےہیں۔ اومان کے وزیرخارجہ یوسف بن علوی کو دیکھیے جو نیتن یاھو سے ملنے کے لیے بھاگا بھگا کار پارکنگ میں جا پہنچا ۔ نیتن یاھو کو ایسے ہی عرب بے وقوفوں کی تلاش ہے جو اس کی انتخابی جیت کا ذریعہ بن سکیں۔