فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور اردن کے درمیان آمد ورفت کے لیے "الکرامہ” کراسنگ کو فلسطینی قوم کے لیے ایک سہولت ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے یہ گذرگاہ ایک طرف تو فلسطینیوں کے لیے عذاب بن گئی ہے اور دوسری طرف صہیونی فوج کی شکار گاہ ہے جہاں سے گذرنے والے جس فلسطینی کو اسرائیلی فوج چاہتی ہے حراست میں لے لیتی ہے۔
یوں الکرامہ گذرگاہ فلسطینیوں کو امنگوں اور تمنائوں کا خون کر رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال براء فرید ابو ظہیر کی ہے۔ اسے ایک بار نہیں بلکہ بار بار اس گذرگاہ سے بیرون ملک جانے سے منع کیا گیا۔ وہ کام کاج اور ملازمت کی غرض سے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں اور غرب اردن سے بیرون ملک سفر کے لیے اس کے پاس الکرامہ کراسنگ کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ پورا غرب اردن اسرائیلی فوج کے پنجوں میں ہے۔ بازار، سڑکیں، گائوں، کالونیاں اور شہر ہر طرف صہیونی فوج دندناتی پھرتی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق 27 سالہ ابو ظہیر کا تعلق غرب اردن کے شمالی شہر نابلس سے ہے۔ اس نے کچھ عرصہ کام کاج کی غرض سے ترکی میں گزارا۔ غرب اردن واپسی کے بعد اس نے دوبارہ بیرون سفر کی بار بار کوشش کی مگر صہیونی فوج کے ہاتھوں ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ الکرامہ گذرگاہ اسرائیلی فوج کے لیے نوجوانوں کی شکار گاہ اور بیرون ملک جانے والوں کے لیے عذاب کا باعث ہے۔
یہ کسی ایک فلسطینی کا تاثر نہیں بلکہ جس فلسطینی کا بھی الکرامہ گذرگاہ کے ساتھ واسطہ پڑا اسے ایسے ہی تکلیف دہ حالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چاہے فلسطینی بیرون ملک جانا چاہتے ہوں یا باہر سے واپس غرب اردن آنا چاہتے ہیں۔ قابض فوج جب اور جس کو چاہتی ہے حراست میں لے لیتی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو ظہیر نے بتایا کہ بیرون ملک سفر کی اس کی خواہش بار بار اسے صہیونی زندانوں تک لے جاتی ہے۔
اس نے کہا کہ قابض فوج نے اسے بار بار گرفتار اور رہا کیا۔ سنہ 2017ء میں اسے بیرون ملک سفر کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کے بعد اریحا کے قریب ایک فوجی حراستی مرکز میں ڈال دیا گیا۔ وہاں سے بتاح تکفا ٹارچر سیل میں ڈالا گیا۔
اس کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج نے 18 ماہ تک اسے قید میں رکھا۔ سنہ 2017ء کو میں نے بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے کی کوشش کی۔ بیرون ملک جانے کے بجائے مجھے جیل میں ڈال دیا گیا۔
محرومی کی دیگر مثالیں
الکرامہ گذرگاہ پرمصیبت اور مشکلات کا شکار ہونے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ فلسطین ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق ایک مقامی فلسطینی نوجوان بکر عبدالحق کو کچھ عرصہ قبل الکرامہ گذرگاہ سے ھراست میں لیا گیا۔ اسے حال ہی میں رہا کیا گیا۔ دوران حراست قابض فوج نے اسے وحشیانہ تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے عبدالحق نے بتایا کہ وہ لبنان اور مصر کے سفر کے بعد جب واپس لوٹا تو اسرائیلی فوج نےاس الکرامہ گذرگاہ سے گرفتار کر لیا گیا۔
ایک مقامی مدرس مفید جلغوم نے بتایا کہ وہ مصر کی ایک یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے حصول کے لیے قاہرہ سے جب واپس لوٹا قابض فوج نے الکرامہ گذرگاہ سے حراست میں لے لیا۔ اسے ڈیڑھ سال سے زاید عرصے تک مسلسل پابند سلاسل رکھا گیا اور دوران قید انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
جلغوم کا کہنا تھا کہ سب سے مشکل وقت وہ تھا جب میرے خاندان کو ایک ماہ تک میرا کوئی پتا نہ چلا۔ انہیں ایک ماہ کے بعد پتا چلا کہ مجھے پل سے گرفتارکر لیا گیا ہے۔
الکرامہ گذرگاہ سے گرفتار ہونے والوں میں ایک نام وسیم مراد ربایعہ کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ 22 سالہ محمد عبدالصمد شواھنہ کو اردن سے واپسی کے چار روز بعد گرفتار کیا گیا۔
خیال رہے کہ غرب اردن کی تمام گذرگاہوں پر صہیونی فوج کا قبضہ ہے۔ اس لیے فلسطینیوں کو بیرون ملک سفر کے دوران مسلسل عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔
الکرامہ گذرگاہ پر اسرائیلی فوج نے 1967ٰء کی جنگ کے بعد قبضہ کیا۔ یہ گذرگاہ شاہ حسین پل پر غرب اردن کی طرف بنائی گئی ہے۔ اسے شاہ حسین پل کراسنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل اسے النبی پل کا نام دیتا ہے۔