گذشتہ جمعہ کو انڈونیشیا میں آنے والے زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 1200 سے تجاوز کرگئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پالو میں متعدد افراد ابھی تک عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
امدادی کارکن بھاری مشینری کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ایک ہوٹل اور شاپنگ سینٹر کے ملبے کو صاف کیا جا سکے۔ فی الحال آفٹر شاکس کی وجہ سے وہاں جانا محفوظ نہیں ہے۔
ملبے میں پھنسے بعض لوگوں کو پانی اور خوراک پہنچائی گئی ہے اور کچھ لوگ مدد کے چلا رہے ہیں۔
حکام کے مطابق زلزلے اور سونامی سے مرنے والوں کی تعداد 1203 تک پہنچ گئی ہے۔
انڈونیشیا کے صدر جوکو وڈوڈو نے علاقے کے دورے کے موقعے پر زور دیا کہ ‘دن رات’ کوشش کر کے متاثرین کو ملبے تلے سے نکالا جائے۔
مقامی میڈیا کے مطابق شاپنگ مال کے ملبے کے نیچے سے موبائل فون کے سگنلز کی نشان دہی ہوئی ہے اور رویا رویا ہوٹل کے نیچے سے لوگوں کو چیختے پکارتے سنا گیا ہے۔
رضاکاروں کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے مختلف جگہوں پر ایک بچے سمیت لوگوں کی چیخ پکار سنی ہے۔ وہ مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ ہم نے ان کی ہمت بندھائی تاکہ ان کے حوصلے برقرار رہیں کیوں کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار ہیں۔
‘ہم نے انھیں پانی اور خوراک دی لیکن وہ یہ نہیں چاہتے۔ وہ باہر نکلنا چاہتے ہیں۔’
اس زلزلے سے سمندر میں چھ میڑ یا 20 فٹ اونچی سونامی لہر بھی پیدا ہوئی۔
ملک کے امدادی ادارے کے سربراہ محمد سایوگی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ انھیں ہنگامی بنیادوں پر بھاری مشینری درکار ہے تاکہ ملبے کو ہٹایا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا عملہ متاثرہ علاقوں میں موجود ہے لیکن اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی سے نمٹنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔
ڈونگالا کے قصبے کے بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ وہاں ہونے والے نقصانات کے بارے میں دو دن گزر جانے کے باوجود مکمل تفصیلات موصول نہیں ہو سکی ہیں۔
بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس کے مطابق اس قدرتی آفات میں کم از کم 16 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس آفات میں ہونے والا اصل نقصانات ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔