شنبه 16/نوامبر/2024

’کنفیڈریشن‘ میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی حیثیت!

منگل 11-ستمبر-2018

ان دنوں بالعموم اور عالمی میڈیا بالخصوص فلسطینی و اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں فلسطین اور اردن کے درمیان ’کنفیڈریشن‘ کے تجاویزکا کافی چرچکا ہے۔

’کنفیڈریشن‘ کیا ہے اور فلسطین، اسرائیل اور اردن کی ’کنفیڈریشن‘ کی صورت میں ان کی حیثیت کیا ہوگی؟، اس رپورٹ میں انہی سوالات کے جوابات دیے جا رہے ہیں۔

’کنفیڈریشن‘

’کنفیڈریشن‘ کی اصطلاح ایک ہی خطے کے ایک سے زاید ممالک کا انتظامی ، سیاسی اور دفاعی امور سمیت بعض دوسرے شعبوں میں اتحاد ہے۔ عموما ’کنفیڈریشن‘ میں ایک مکمل طورپر خود مختار ملک یا زیادہ آپس میں تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ متعدد شعبوں میں کوآرڈی نیشن قائم کرتے ہیں۔ یہ ممالک کےعلاوہ اداروں میں بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ممالک میں ہوتو اس صورت میں ان میں سے ایک کو مرکزی یا وفاقی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور دوسری ریاستوں کو اس کا حصہ سمجھا جاتا ہے مگر ان کے امور ایک دوسرے سے جدا اور الگ تھلگ بھی ہوسکتے ہیں۔

فلسطین میں ’کنفیڈریشن‘ کی اصطلاح مرحوم اردنی فرمانروا شاہ حسین اور فلسطینی رہ نما یاسرعرفات کے درمیان 1980ء کی دھائی میں زیرغور آئی تھی۔ اس اصطلاح کے استعمال اور ترویج کا مقصد خطے کے ممالک کے مشترکہ آبی، اقتصادی اور تنظیمی مسائل میں ایک دوسرے کے حق میں دست بردار ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر امور بھی زیربحث آتے ہیں۔

حال ہی میں ’کنفیڈریشن‘ کی اصطلاح ایک بار پھر 2 نومبر 2018ء کو سامنے آئی جب اسرائیل کے ایک وفد نے فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ محمود عباس نے کہا کہ انہوں نے مشروط طور پر ’کنفیڈریشن‘ کی تجویز سے اتفاق کیا ہے مگر فلسطینی قوم اور نمائندہ قیادت کا اس سےاتفاق نہیں۔ اگرچہ اسرائیلیوں کی اکثریت بھی اس کی حامی نہیں مگر اسرائیل کی کچھ لیڈر شپ اس کی حامی ہے۔

تجویز کی پیش کش کی تاریخ

اسرائیلی امور کے ماہر صلاح الدین العواودہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 1967ء میں اسرائیل اور اردن نے ’کنفیڈریشن‘ کی تجویز اس لیے دی تھی تاکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اردن کی عمل داری میں دیا جاسکے مگر سنہ 1977ء کو اسرائیل کی موجودہ حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ پہلی بار برسراقتدار آئی۔ اس کے بعد آج تک اردن کی غرب اردن پر عمل داری کی تجویز پیش نہیں کی گئی۔

سنہ 1984ء سے 1988ء کے درمیان اس وقت کے اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز نے اسرائیلی وزیراعظم شامیر کی ہدایت پر ’کنفیڈریشن‘ کی تجویز لے کر اردن کے شاہ حسین کے پاس گئے مگر سنہ 1987ء میں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں اسرائیل نے یہ تجویز خود ہی مسترد کردی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین میں پہلی تحریک انتفاضہ شاہ حسین کے دور میں شروع ہوئی تھی۔

فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غرب اردن کو اردن کی ہاشمی حکومت کی عمل داری میں دینے کا مقصد فلسطینی ریاست کےقیام کی راہ روکنا تھا۔ اسرائیلیوں کے خیال میں فلسطینی ریاست کےقیام سے اردن کی غرب اردن پر عمل داری اسرائیل کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اگر غرب اردن کو اردن میں شامل نہیں کیا جاتا تو اس علاقے کی آبادی کو باہر نہ نکالنا، انہیں اسرائیل مین مساوی سیاسی حقوق سے محروم رکھنا اور آبادی میں اضافے کو بڑھتے رہنے دینا ایک  آبادی کا بم بن کر اسرائیل پرگرسکتا ہے۔

اسرائیل کیا چاہتا ہے؟

فلسطینی دانشور اور صہیونی ریاست کے امور کےماہر صالح النعامی کا کہنا ہے کہ بنیادی طورپر’کنفیڈریشن‘ اسرائیلی تجویز ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ غرب اردن میں فلسطینیوں کی اکثریت والے علاقے اردن کےساتھ مل جائیں اور اقلیت کو اسرائیل سنھبال لے گا۔ اسرائیل جن شرائط کو فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کی طرف منسوب کررہا ہے دراصل وہ شرائط خود صہیونیوں کی بھی ہوسکتی ہیں۔

اسی سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے کہا کہ ’کنفیڈریشن‘ کی اصطلاح متعارف کرا کرلاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنے فرائض سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کنفیڈریشن‘ کی تجویز اپنی جگہ مگر دو ریاستی حل کی تجویز اپنی جگہ اب  بھی قائم ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ ’کنفیڈریشن‘ جیسی ناقابل عمل اصطلاحات کو ترویج دے کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ دو ریاستی  حل اپنی موت آپ مرچکا ہے۔

صدی کی ڈیل کا حصہ

فلسطینی سیاسی امور کے تجزیہ نگار ایمن الرفاتی کا کہنا ہے کہ ’کنفیڈریشن‘ امریکا کی طرف سے تجویز کردہ امن اسکیم’صدی کی ڈیل‘ کا حصہ ہوسکتی ہے۔ اسرائیل اور امریکا دونوں مل کر صدی کی ڈیل کے ذریعے قضیہ فلسطین کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور مطالبات کو یکے بعد دیگرے سرد خانے کی نذر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اسرائیلی صدر رؤف ریفیلین نے ’کنفیڈریشن‘ کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین اور اردن آپس میں ’کنفیڈریشن‘ کر سکتے ہیں اور قضیہ فلسطین کا مناسب حل ہے۔

مختصر لنک:

کاپی