اقوام متحدہ کے تحقیق کاروں نے پیر کے روز بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ میانمار کی فوج کے سربراہ اور اُن پانچ عسکری قائدین کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے جن پر مسلم روہینگا کمیونٹی کے خلاف اجتماعی نسل کشی کے جرائم کے ارتکاب کے الزامات ہیں۔
اقوام متحدہ کے زیر انتظام حقائق جاننے والے مشن کا کہنا ہے کہ "میانمار کی فوج کے سینئر جنرلوں کے حوالے سے تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ ان میں فوج کے اعلی کمانڈر اور سینئر جنرلز شامل ہیں۔ علاوہ ازیں راکھین صوبے کے شمال میں اجتماعی نسل کشی ، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات میں مذکورہ افراد کے خلاف عدالتی کارروائی بھی عمل میں لائی جانی چاہیے”۔
گزشتہ برس اگست میں میانمار میں "باغی گروپوں” کے خلاف پرتشدد سکیورٹی آپریشن کے آغاز کے بعد تقریبا 7 لاکھ روہینگا باشندے میانمار کے شمالی صوبے راکھین سے بنگلہ دیش فرار ہو گئے تھے۔ اس دوران رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی کہ سرکاری فوجیوں اور ان کی ہمنوا ٹولیوں کی جانب سے قتل، زندہ جلانے اور عصمت دری کے واقعات بڑی تعداد میں رُونما ہوئے۔
میانمار کے حکام نے خود پر عائد نسلی تطہیر کے الزامات کو سختی سے رد کر دیا۔
تاہم اقوام متحدہ کے مشن نے پیر کے روز اپنی رپورٹ میں اس امر پر زور دیا ہے کہ میانمار کی فوج کی جانب سے کی جانے والی تدابیر بڑی حد تک حقیقی سکیورٹی خطرات کے مساوی نہ تھیں۔
مذکورہ مشن کو مارچ 2017ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے تشکیل دیا تھا۔ مشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ "راکھین صوبے میں واقع ہونے والے جرائم اور ان کا جس انداز سے ارتکاب کیا گیا ،،، وہ اپنی نوعیت کے حوالے سے یہ باور کراتے ہیں کہ اجتماعی نسل کشی کا ارادہ موجود تھا”۔
رپورٹ میں میانمار کی خاتون رہ نما آنگ سان سُوچی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ "انہوں نے حکومتی سربراہ کی حیثیت سے ملک میں جاری واقعات کو روکنے کے لیے اپنے منصب کو استعمال نہیں کیا”۔
امن کی نوبل انعام یافتہ سُوچی کو میانمار کی شہریت سے محروم اقلیت کے دفاع میں ناکامی کے بعد وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اگرچہ تحقیق کاروں نے سُوچی اور شہری اختیارات کے حامل ذمّے داران کے عسکری اداروں کی کارروائیوں پر محدود نفوذ کا اقرار کیا تاہم انہوں نے کہا کہ سُوچی اور دیگر عہدے داران نے اپنی کوتاہی اور غفلت کے ذریعے مرتکب شرم ناک کارستانیوں میں کردار ادا کیا۔