امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی فوج امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر بحر الکاہل کے علاقے میں ’حملہ کرنے کی تیاریاں‘ کر رہی ہے۔
کانگریس کو پیش کی جانے والی پینٹاگون کی یہ سالانہ رپورٹ کہتی ہے کہ چین مسلسل اپنی عسکری صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے اور اب اس کا دفاعی بجٹ 190 ارب ڈالر ہو گیا ہے جو کہ امریکی دفاعی بجٹ کا ایک تہائی حصہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا: ’گذشتہ تین سالوں میں پیپلز لبریشن آرمی نے تیزی سے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور میری ٹائم علاقوں میں مشقیں کی جس سے لگتا ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کی تیاریوں کا حصہ ہے۔‘
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ چین ان تیاریوں سے کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔
اس رپورٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ’چین تائیوان پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے بھی انتظامات کر رہا ہے۔‘
’چین اپنی زمینی افواج تیار کر رہا ہے کہ وہ جنگ کریں اور جیت حاصل کریں۔ اور اگر امریکا نے دخل اندازی کی، تو چین اس کو روکنے کی کوشش کرے گا اور چاہے گا کہ مختصر دورانیے کی مگر تیز شدت کی جنگ ہو جس میں وہ کامیابی حاصل کر سکے۔‘
چین تائیوان کو اپنے حصہ تسلیم کرتا ہے لیکن امریکا اس کی آزادی کا حامی ہے۔
امریکی اور چینی عسکری حکام کی آپس میں گفتگو ہوتی رہی ہے تاکہ آپس کے تناؤ کو کم کیا جائے لیکن یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہیں۔
ان تمام حالات کے باوجود، گذشتہ جون جیمز میٹس امریکا کے پہلے سیکریٹری دفاع تھے جنھوں نے 2014 کے بعد چین کا دورہ کیا۔
دوسری جانب امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ٹرمپ نے سائبر حملوں کے قواعد میں نرمی کی اجازت دی دے ہے جنھیں سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں تیار کیا گیا تھا۔ ان قواعد و ضوابط کی روشنی میں سائبر حملے کرنے سے پہلے کئی سرکاری محکموں کو شامل کرنا ضروری تھا۔
واضح رہے کہ امریکی انتظامیہ سائبر حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت دباؤ میں ہے۔ گذشتہ جون ہی فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن نے ایک مبینہ چینی سائبر حملے کی تفتیش کرنا شروع کی تھی جو امریکی بحریہ کے ایک کنٹریکٹر پر کیا گیا تھا اور جس کی وجہ سے خفیہ معلومات چرا لی گئی تھیں۔