جمعه 15/نوامبر/2024

صہیونی ٹارچر سیل کے اندر کیا کچھ ہوتا ہے؟

اتوار 12-اگست-2018

فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’ضمیر فاؤنڈیشن برائے کفالت اسیران انسانی حقوق‘ نے رپورٹ میں ’مسکوبیہ‘ نامی اسرائیلی عقوبت خانے میں فلسطینی قیدیوں پر ڈھانے جانے والے مظالم کے حربوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’المسکوبیہ‘ نامی ٹارچر سیل میں ڈالے گئے فلسطینیوں کو قانونی تحفظ حاصل نہیں اور حراستی مرکز میں قیدیوں کے بنیادی حقوق سر عام پامال کیے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں حراستی مرکز پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ قید خانے میں کئی خفیہ ٹارچر سیل، تفتیشی کمرے،عدالتی روسٹروم  ہیں جہاں ان تمام مقامات پر قیدیوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔ یہاں پر لائے گئے فلسطینی اسیران کے عزم اور حوصلے توڑنے اور انہیں شکست خوردہ کرنے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قید خانوں میں موجود فلسطینیوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کردیا جاتا ہے اور طویل عرصے تک انہیں وکیل حاصل کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ 54.8 فی صد فلسطینی قیدیوں کو دو ہفتے تک تشدد کے بدترین حربوں کا سامنا رہتا ہے۔

انسانی حقوق گروپ کی مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صہیونی دشمن مسکوبیہ حراستی مرکز میں فلسطینی اسیران  کو غیرانسانی ماحول میں رکھتے ہیں۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق اور عالمی قوانین کے تحت بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہوتیں۔ یہاں لائے گئے 66.3 فی صد فلسطینیوں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر منتقل کیا جاتا ہے۔75 فی صد کے ہاتھوں اور پاؤں کو پاسٹک کی کاٹ دینے والے رسیوں سے جکڑا جاتا ہے۔ 42.5 فی صد کو گرفتاری کے وقت اس حراستی مرکز میں لائے جانے کے فوری بعد ہولناک جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا بنایا جاتا ہے۔ 33.8 فی قیدیوں کو لاتوں اور مکوں سے مارا جاتا ہے جب کہ 10 فی صد کو اسلحہ اور دیگر پر تشدد آلات سے مارا پیٹا جاتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی اسیران کو گھنٹوں عریاں یا نیم عریاں حراستی مراکز میں قید رکھا جاتا ہے۔ انہیں سخت گرمی اور شدید سردی کے ماحول میں قید کیا جاتا ہے۔ 48.8 فی صد صہیونی جلادوں کی طرف سے گالیوں اور 30 فی صد کو جان سے ما دینے کی دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے۔

مسکوبیہ حراستی مرکز میں قید 59.5 فیصد کو کرسیوں پر باندھا جاتا ہے اور حراستی مرکز میں لائے گئے 40.9 فی صد بچوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ان کے والدین کو اذیت دی جائے گی۔

جہاں تک قیدیوں پرمظالم ڈھانے والوں کا تعلق ہے تو قیدیوں کواذیتیں دینے میں صہیونی انٹیلی جنس اداروں کے جلادوں کےساتھ ساتھ، پولیس، فوج، پرائیویٹ کنٹریکٹر ’شاباک‘ اور دوسرے اداروں کے جلاد بھی شامل ہوں گے۔

’ڈاکٹربھی جلاد بن گئے‘

انسانی حقوق گروپ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’مسکوبیہ‘ حراستی مرکز میں نام نہاد ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں مگر ڈاکٹروں کی شکل میں نام نہاد ڈاکٹر جلادوں سے کم نہیں۔ وہ صہیونی خفیہ ادارے’شاباک‘ کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی قیدیوں کی حالت غیرہونے کے باوجود ڈاکٹروں کی طرف سے قیدیوں کے بارے میں ’سب ٹھیک ہے‘ کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ حراست میں لیے گئے 58.8 فی صد کو گھروں سے رات کی تاریکی میں، 75 فی صد کو ان کے گھروں سے اور 10 فی صد کو سڑکوں اور بازاروں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔

ضمیر فاؤنڈیشن کی ٹیم نے انسانی حقوق کے مندبین، فیلڈ ریسرچرز، قانونی ماہرین کے ساتھ 138 قیدیوں سے بھی ملاقات کی۔ یہ رپورٹ 2015ء سے2017ء کے آخر تک کے واقعات کو شامل کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں 83.7 فی صد مرد اور 16.3 فی صد خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ مسکوبیہ حراستی مرکز میں لائے گئےفلسطینیوں میں 13 سے17 فی صد کے 22.5،18 سے 29 سال کے 62.5 اور 30 سال سے زاید عمر کے 15 فی صد قیدیوں کے حالات کا جائزہ لیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی