فلسطینی دھڑوں کےدرمیان مصالحت چوہے بلی کا کھیل بنا ہوا ہے۔ صدر محمود عباس کی جماعت تحریک فتح اور اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے درمیان مصر کی مساعی سے مفاہمتی کوششیں کئی سال سے جاری ہیں مگر تحریک فتح کے غیر لچک دار طرزعمل کے نتیجے میں مصالحتی عمل مسلسل تعطل کا شکار ہے۔
اب کی بار ایک بار پھر مصرنے مصالحتی کوششیں تیز کی ہیں۔ دونوں بڑی فلسطینی جماعتوں کی قیادت قاہرہ کے میراتھن دورے کر رہی ہے۔
ماضی کی کئی ناکام کوششوں کے بعد آج ایک بار پھر یہ سوال اپنی جگہ پوری جرات کے ساتھ موجود ہے کہ آیا اس بار قومی مصالحت کا عمل کامیاب ہو پائے گا یا نہیں؟۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے حوالے سے عالمی، علاقائی اور عرب ممالک کی سطح پر غیرمسبوق حمایت جاری کی ہے۔
معجزے کا انتظار
فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ قومی مصالحتی عمل کا آغاز مایوس کن انداز میں ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر عاید کردہ پابندیوں کے باعث فلسطینی دھڑوں میں مصالحتی عمل تعطل کا شکار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب بھی قومی مصالحت کے بارے میں زیادہ امیدیں نہیں لگائی جاسکتیں کیونکہ فلسطینی دھڑوں کا ٹریک ریکارڈ اس حوالے سے مایوس کن ہے۔ تاہم فلسطینی قوم کسی معجزے کے انتظار میں ہے۔
حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان قومی مصالحت قوم کا دیرینہ مطالبہ ہے مگر یہ اس وقت تک مکمل ہوسکتا جب فلسطینی اتھارٹی غزہ کی پٹی پرعاید کردہ انتقامی پالیسیاں ختم کی جائیں۔
جبری مصالحت
سیاسی تجزیہ نگار اور عوامی محاذ کے رہ نما ذوالفقار سویرجو نے ایک بیان میں کہا کہ قومی مصالحت کے حوالے سے فلسطینیوں کے پاس بہت سے آپشنز ہیں۔ فلسطینیوں میں مصالحت نہ صرف فلسطینی بلکہ پوری قوم کے مفاد میں ہے۔ فلسطینی دھڑوں میں مصالحت فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے بھی مفاد میں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو قومی مصالحت پر عمل درآمد کے لیے غزہ کی پٹی کے عوام کو انسانی بنیادوں پر دی جانے والی سہولیات کو روکنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی دھڑوں کو ہرصورت میں مصالحت کرنا ہوگی۔ غزہ کی پٹی میں جنگ سے بچنے کے لیے بھی فلسطینی دھڑوں میں مصالحت ضروری ہے۔ سب سے زیادہ فایدہ غزہ کے عوام کو ہوگا۔ قومی مفاہمت ہی کے ذریعے فلسطینی قوم مصالحت ہی کے ذریعے’صدی کی ڈیل‘ کی امریکی سازش کو ناکام بنایا جا سکتی ہے۔