اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ حال ہی میں مصر کے دورے کے دوران جماعت کے وفد اور مصری قیادت میں فلسطینیوں میں مصالحت کےحوالے سے بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر مصری حکام نے فلسطینی دھڑوں میں صلح کے لیے مثبت تجاویز پیش کیں۔حماس نے انہیں قبول کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد میں معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
خبر رساں ادارے’وفا‘ سے بات کرتے ہوئے ابو مرزوق نے کہا کہ مصری قیادت کی طرف سے فلسطینی دھڑوں میں مصالحت اور مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی گئیں وہ قابل عمل ہیں اور حماس نے انہیں قبول کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مصالحتی عمل کے لیے از سر نو مذاکرات نہیں کیے جائیں گے بلکہ پہلے سے طے شدہ امور پرعمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہ نما نے کہا کہ فلسطینی دھڑے سنہ 2011ء کے قاہرہ مصالحتی سمجھوتے کو قبول کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام تجاویز پرعمل درآمد کے لیے ٹائم فریم مقرر کیاجائے گا۔ مصالحتی عمل کا آغاز غزہ پر عاید کردہ فلسطینی اتھارٹی کی پابندیوں کےخاتمے سے ہوگا۔ اس کے بعد فلسطینی وزراء کو غزہ میں اپنی حکومتی ذمہ داریاں سنھبالیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین میں ایک نئی قومی حکومت کی تشکیل کے لیے بات چیت شروع کی جائے گی۔
حماس رہ نما نے کہا کہ ان کی جماعت فلسطینی دھڑوں میں غیر مشروط مصالحت کی حامی ہے اور پہلے سے طے پائے مصالحتی معاہدوں پرمکمل عمل درآمد کے لیے پورے عزم اور ارادے کے ساتھ کام کررہی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ تحریک فتح بھی اپنے فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی خدمت کے لیے مصالحت کے عمل میں سنجیدگی کے ساتھ شامل ہوگی۔
ابو مرزوق نے خبردار کیا کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کی پٹی پر عاید کردہ پابندیوں کا خاتمہ نہ کیا گیا تو مصالحتی عمل تعطل کا شکار رہے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کو پچھلی حکومت کے دور میں غزہ میں بھرتی ہونے والے تمام ملازمین کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مالی حقوق کی فراہمی کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے ملازمین کے حوالے سے حماس کے مطالبے کے مطابق عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد جماعت غزہ میں ٹیکسوں کا شعبہ فلسطینی حکومت کے سپرد کردے گی۔