’آئرلینڈ کے سفیر کو طلب کر کے ڈانٹ ڈپٹ کا کائی فایدہ نہیں۔ اسرائیل کے دشمنوں کے ساتھ ہمارا کوئی مجادلہ نہیں، اسرائیل کو چاہیے کہ وہ ڈبلن میں قائم اپنا سفارت خانہ فوری بند کرکے آئرلینڈ میں تعینات اسرائیلی سفیر واپس بلائے۔ جو ہمارا بائیکاٹ کرتے ہیں ہمیں دوسرا گال ان کے سامنے نہیں رکھنا چاہیے‘۔
یہ الفاظ اسرائیلی وزیر دفاع اور عالمی دہشت گرد ’آوی گیڈور لایبرمین‘ کے ہیں جو آئرلینڈ کی سینٹ میں غرب اردن کی غیرقانونی یہودی کالونیوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بل منظور کرنے پر سخت چراغ پا ہے۔ ائرلینڈ کی پارلیمنٹ میں صہیونی مصنوعات کی درآمدات پر پابندی کا بل منظور ہونے پر اسرائیل کا چراغ پا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ آئرلینڈ نے صہیونی غاصب ریاست کے منہ پر ایک نیا اور زور دار طمانچہ رسید کیا ہے جس کے اثرات دور رس ہوں گے۔
آئرلینڈ کی سینٹ میں اسرائیل کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک ’BDS‘ کے اثرات قبول کرتے ہوئے صہیونی ریاست کا بائیکاٹ کرنا صہیونی ریاست کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔ اسرائیلی حکومت نے اسے منفی اقدام قراردیا جب کہ فلسطینی حلقوں کی طرف سے اس کی تحسین اور خیرمقدم کیا گیا۔
واضح رہے کہ آئرلینڈ کی سینٹ نے حال ہی میں ایک بل کی کثرت رائے سے منظوری دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی متنازع علاقوں میں تیار کی گئی مصنوعات کو درآمد کرنے یا درآمد کرنے میں مدد کرنے میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے گی۔
اسی طرح فلسطینی کے قدرتی وسائل اور علاقائی پانی سے اسرائیل کو ناجائز فایدہ اٹھانے میں معاونت کرنے والوں کو بھی سخت سزا دی جائے گی اور ایسے افراد اور اداروں پر پابندیاں عاید کی جائیں گی۔
آئرلینڈ کی سینٹ میں منظور ہونے والے قانون کو عملی شکل میں لانے کے لیے حکومت کو مزید قانون سازی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
نیا محاذ جنگ
فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی دن نہیں گذرتا کہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں صہیونی ریاست کے عالمی بائیکاٹ کی تحریک ’BDS‘ سے متعلق کوئی نا کوئی خبر شائع یا نشر نہ کی جاتی ہو۔
اسرائیل کا عالمی سطح پر بائیکاٹ ایک نئے محاذ جنگ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ایک طرف اسرائیل اس تحریک کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتا اور ابلاغی زور آزمائی کرتا ہے اور دوسری طرف عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیمیں صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کی مہمات چلاتی ہیں۔ اسرائیل کا سفارتی، سیاسی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک تمام تر مالی وسائل کو بھی بائیکاٹ تحریک کو غیر موثر بنانے میں سرگرم ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کی تحریک کی پیش رفت اور کامیابی صہیونی ریاست کے لیے باعث تشویش بن چکی ہے۔ آئرلینڈ کی سینٹ میں صہیونی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بل کی منظوری نے اسرائیل کو ایک نئے بحران سے دوچار کردیا ہے۔
آئرلینڈ کی پارلیمان میں منظور کردہ بل پراسرائیل اس لیے بھی حیران ہے کیونکہ صہیونی ریاست کو یہ گمان تھا کہ امریکا اور براعظم یورپ ایسے خطے ہیں جہاں اس کی مصنوعات کو ہمیشہ پذیرائی ملتی رہی ہے اور یہ ممالک فلسطینیوں کے بجائے اسرائیل کی زیادہ حمایت کرتے ہیں۔
آئرلینڈ اور اسرائیل میں مسلسل کشیدگی
آئرلینڈ پہلا ملک نہیں جس نے صہیونی ریاست کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سرکاری سطح پر اعلان کیا ہے۔ ویسے آئرلیںڈ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کئی ماہ سے جاری ہے۔ اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے مطابق رواں سال اپریل میں اسرائیل آئرلینڈ پر اس وقت سخت برہم ہوا تھا کہ دارالحکومت اور مرکزی شہر ڈبلن کی حکومت نے سرکاری عمارتوں پر فلسطین کا پرچم لہرا دیا تھا۔ بعد ازاں 15 مئی کو فلسطین میں صہیونی ریاست کے غرب اردن ،بیت المقدس اور غزہ پر غیرقانونی قبضے کی پچاس سال پورے ہونے پر بھی ڈبلن کی سرکاری عمارتوں پر فلسطینی پرچم لہرا یا گیا۔
اسرائیل نے ڈبلن کی مقامی حکومت کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی جب کہ دوسری طرف آئرلینڈ کی بلدیہ نے صہیونی ریاست کو ’وحشی‘ طاقت قرار دے کر اس کے الزامات کو مسترد کردیا۔
اسی طرح 14 مئی کو جب اسرائیلی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں پرامن احتجاج کرنے والے 70 بے گناہ فلسطینی شہید کردیے تو آئرلینڈ وہ پہلا ملک تھا جس نے فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاج کرتے ہوئے اپنا سفیر اسرائیل سے واپس بلالیا تھا۔
’BDS‘ کیا ہے؟
’بی ڈی ایس‘ [BDS] تحریک دنیا بھر میں اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کے لیے سرگرم ہے۔ یہ تنظیم ممالک،حکومتوں ، تنظیموں اور کمپنیوں کو صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کی ترغیب دے رہی ہے۔
اس تحریک کا آغاز سنہ 2005ء میں فلسطینی شہروں سے ہوا۔ اس تحریک نے تیزی کے ساتھ اپنے اثرو نفوذ میں اضافہ کیا۔ فلسطینیوں کے حقوق کی نمائندگی کرنے والی اس تحریک کا ماٹو آزادی، مساوات، خود مختاری، تشدد ، نسل پرستی، نسلی تطہیر، آباد کاری اور شہریوں کو ان کے ملک سے نکال باہر کرنے کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلندکرنا ہے۔
اس تحریک کے تین بنیادی نکات ہیں جنہیں انگریزی نے تین حروف B،D اور S کے مخفف سے جانا جاتا ہے۔ یوں اس کا پورا نام Sanctions Divestment Boycott ہے۔ یعنی بائیکاٹ، سرمایہ کاری واپس لینا اور پابندیاں عاید کرنا ہے۔
یہ تحریک اسرائیلی ریاست کے تعلیمی، سیاسی، سفارتی، تجارتی، سماجی اور دیگر شعبوں میں بائیکاٹ کی مہمات چلاتی ہے۔
مہم کا دوسرا نقطہ سرمایہ کاری واپس لینا ہے۔ یہ تحریک اسرائیل میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں اور ممالک کو اپنا سرمایہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے تاکہ اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے غصب شدہ حقوق کی بحالی کے لیے صہیونی ریاست پردباؤ ڈالا جاسکے۔
تیسرا نقطہ پابندیوں پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے بائیکاٹ تحریک عالمی سطح پر آگاہی مہمات چلاتی ہے۔ ان مہمات میں فلسطینیوں کے مسلمہ حقوق کے احترام پر زور دیا جاتا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں اور دیگر فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے۔
یہ تحریک اپنے قیام کے بعد دنیا بھر میں صہیونی نسل پرستی کو بے نقاب کرنے، کئی ممالک اور کمپنیوں کو اسرائیل کے بائیکاٹ، سرمایہ کاری واپس لینے اور بعض اداروں کی طرف سے پابندیاں عاید کرانے میں کامیاب رہی ہے۔