اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ ناقابل شکست ہوچکی ہے اور جماعت کو کچلنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2009ء میں جب وہ اسرائیل کے وزیراعظم تھے تو وہ حماس کو اقتدار سے محروم کرسکتے تھے مگر ایسا نہ کرنے پر آج انہیں افسوس ہے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی ’i24‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اولمرٹ نے کہا کہ میرے دور حکومت میں غزہ میں حماس کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی مگر اسے ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ کارروائی ادوھوری چھوڑنے میں اس وقت کےوزیر دفاع کا کردار تھا اور آج ہمیں اپنی اس غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیردفاع نے کہا تھا کہ اگر ہم غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے نتیجے میں بہت بڑی تباہی پھیلے گی اور اسرائیل کو اس کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ اس لیے اس وقت حماس کے خلاف آپریشن ادھورا چھوڑا دیا گیا۔
خیال رہے کہ سنہ 2009ء میں اولمرٹ کے دور حکومت نے اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کی تھی جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوگئے تھے۔ 27 دسمبر کو شروع ہونے والی یہ جنگ 21 روز جاری رہی جس میں 1436 فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ شہداء میں 140 بچے، 100 معمر افراد شامل تھے جب کہ 5400 فلسطینی جن میں نصف تعداد بچوں کی تھی زخمی ہوئے۔
اس کے بعد اسرائیل نے 14 نومبر 2012ء کو غزہ پر جنگ مسلط کی۔ یہ کارروائی 8 دن جاری رہی جس میں 162 فلسطینی شہید ہوگئے۔ شہداء میں 42 بچے اور 11 خواتین شامل تھیں اور 1300 فلسطینی زخمی ہوئے تھے۔
غزہ پر تیسری جنگ سات جولائی 2014 کو مسلط کی گئی جو 51 روز تک جاری رہی۔ اس جنگ میں 2322 فلسطینی شہید ہوگئے۔ شہداء میں 578 بچے، 489 خواتین، 102 عمر رسیدہ افراد شامل تھے اور 11 ہزار فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔
ایہود اولمرٹ نے سنہ 2005ء میں غزہ سے فوج اور یہودی کالونیوں کے انخلاء کے فیصلے کی حمایت کی اور کہا اس فیصلے نے اسرائیل کو کئی خطرات سے بچایا۔
انہوں نے موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کو مشورہ دیا کہ وہ عزت سے مستعفی ہوجائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عزت و وقار سے وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑا ذاتی انا سے زیادہ بہتر ہے۔