صہیونی ریاست بالعموم روزہ مرہ کی بنیاد پر اور بالخصوص ماہ صیام کے دوران فلسطینی شہریوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر کئی طرح کی پابندیاں لگانے اور فلسطینیوں کو مسجد تک رسائی سے روکنے کی پالیسی پرعمل پیر ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ماہ صیام کےجمعہ کے ایام، آخری عشرے یا لیلۃ القدر کے موقع پر فلسطینی زیادہ سے زیادہ مسجد اقصی میں آنے اور عبادت میں حصہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کی مسجد اقصیٰ تک رسائی کوئی آسان کام نہیں۔ اسرائیل نے 50 سال سے کم عمر کے فلسطینیوں پر قبلہ اول میں داخلے پر پابندی عاید کر رکھی ہے۔ بالخصوص القدس سے باہر سے تعلق رکھنے والا کوئی فلسطینی جس کی عمر پچاس سےسال سے کم ہو اسے مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
جہاں تک بیت المقدس کے فلسطینی شہریوں کا معاملہ ہے تو وہ بھی جگہ جگہ قائم چیک پوسٹوں سے گذر کرقبلہ اول جاتے ہیں۔ غرب اردن سے آنے والے فلسطینیوں کو چیک پوسٹوں اور ناکوں کے ساتھ ساتھ اور کئی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
قابض ریاست نے غرب اردن اور بیت المقدس میں کئی مقامات پر دیوار فاصل تعمیر کر رکھی ہے۔ جب فلسطینیوں کو قبلہ اول میں جانے سے روک دیا جاتا ہے تو وہ مجبورا اس نسلی دیوار کو پھلانگ کر القدس اور مسجد اقصیٰ تک پہنچتے ہیں،مگر یہ کوئی آسان کام نہیں بلکہ زندگی اور موت کا کھیل ہے۔
انیس سالہ حسن الزیر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا تعلق غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم کے زعترہ قصبے سے ہے۔ اس نے ماہ صیام کا گذشتہ جمعہ مسجد اقصیٰ میں ادا کیا۔ وہ عصر تک مسجد میں رہا۔ یہ پہلا موقع ہے جب وہ مسجد اقصیٰ میں نماز کے لیے پہنچا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ میرے گاؤں سے مسجد اقصیٰ تک پونے گھنٹے کا فاصلہ ہے مگر قابض فوج کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کی وجہ سے اسے چار گھنٹے میں یہ مسافت طے کرنا پڑی۔
حسن الزیر کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں آمد زندگی اور موت کا کھیل بن چکا ہے۔ میں جب الزعترہ سے بیت لحم شہر کی طرف نکلا تو میں نے ایک بوڑھی خاتون کے ساتھ ایک چوکی عبور کرنے کی کوشش کی مگر اسرائیلی فوجیوں نے اسے روک لیا۔ اس کی شناخت کی اور آگے جانے سے روک دیا گیا۔
میں نے وہاں سے ابو دیس کی طرف جانے والی ایک گاڑی سے ڈرائیور سے لفٹ مانگی اور اسے کہا کہ وہ مجھے دیوار فاصل تک پہنچا دے۔ میں ایک جگہ دیوار فاصل کے پاس پہنچا تو وہاں کئی فلسطینی نوجوان جمع تھے جو سیڑی اور رسیوں کی مدد سے دیوار عبور کررہے تھے۔ ہم نوجوانوں کا ایک گروپ دیوار فاصل عبور کرکے القدس میں الزیتون کالونی کی طرف بڑھنے لگا تو صہیونی فوج نے ہمیں دیکھ لیا۔ انہوں نے ہمیں دور سے رکنے کے لیے آوازین لگائیں مگر ہم نہیں رکے۔ انہوں نے ہم پر فائرنگ کی مگر ہم بھاگتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے قریب جبل زیتون میں پہنچ گئے۔
الزیرنے بتایا کہ اس دوڑ دھوپ میں ایک نوجوان کا گر کربازو ٹوٹ گیا مگر اس کے باوجود اس کا مسجد اقصیٰ میں نماز کا اشتیاق کم نہیں ہوا۔
خطرات سے بھرپور سفر
الخلیل شہر سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ محمد مسالمہ کا احوال بھی حسن الزیر سے مختلف نہیں۔ اس نے مسجد اقصی میں نماز جمعہ کا قصد کیا تو سفر کا آغاز نماز فجر کے ساتھ ہی کردیا تھا۔ اس نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں معلوم تھا کہ میری عمر ان افراد میں شامل ہے جنہیں مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی مگر اس کے باوجود میں قبلہ اول میں عبادت کے لیے جانے پر مصر تھا۔ میں الخلیل شہر سے ایک کار پر سوار ہوا اور مشرقی بیت المقدس کے العیزریہ کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ العزیریہ میں ہم ایک گھنٹے میں پہنچ گئے مگر اب سوال یہ تھا کہ اسرائیلی فوجی چوکیوں سے بچ کر ہم کسی طرح قبلہ اول میں داخل ہوسکتے ہیں۔ وہاں پر ایک نوجوان نے ہمیں زرد رنگ کے نمبر پلیٹ والی ٹیکسی تک پہنچایا اور کہا کہ ممکن ہے کہ یہ آپ کو بائی پاس روڈ سے مسجد اقصیٰ میں پہنچا دے۔ ٹیکسی والے نے اس سفر کے لیے 100 شیکل کا تقاضا کیا۔ امریکی کرنسی میں یہ رقم تیس ڈالر کے برابر ہے۔
میں نے ٹیکسی والے کو حامی بھرلی اور ہم ایک چویک پوسٹ کے قریب سے آگے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ جب ہماری گاڑی المقاصد اسپتال کےقریب پہنچی تو اسے ایک فوجی جیپ نے روک لیا۔ ہم سات افراد تھے۔ اسرائیلی پولیس نے ہمارے شناختی کارڈ چیک کیے۔ جب انہیں پتا چلا کہ ہم غرب اردن سے آئے ہیں تو ہمیں گاڑی سے اتار دیا گیا اور سڑک کے کنارے پر کھڑا کردیا گیا۔ اسرائیلی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہم پر بندوقیں تان لیں۔
ہمیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر اس کے ساتھ ہم میں سے ایک نوجوان بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسرائیلی فوجی اس پر ہوائی فائرنگ کردتے ہوئے بھاگے تو ہمیں موقع مل گیا اور ہم بھی مسجد اقصیٰ کی طرف دوڑ پڑے۔ صہیونی فوجیوں نے ہمارے پیچھے بھی فائرنگ کی مگر ہم اللہ کےکرم سے محفوظ رہے اور مسجد اقصیٰ میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔