اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس میں فلسطینی امور کو ڈیل کرنےکے ذمہ دار قونصل خانے کا درجہ مزید کم کرتے ہوئے اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈ مین کو مزید اختیارات دینے پرغور شروع کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی حکومت کی طرف سے اس اقدام کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کی مساعی کو مزید کم کرنے اور اس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرنا ہے۔ ان خبروں کے بعد فلسطینی قوم کو الگ ریاست کے حوالے سے مزید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اخباری رپورٹس کے مطابق بیت المقدس میں فلسطینی امور کے ذمہ دار قونصل خانے کے پانچ عہدیداروں نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس قونصل خانے کا دائرہ کار مزید محدود کرنے اور اس میں کام کرنے والے عملے کے اختیارات کو کم کرنے پر غور کررہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ القدس میں فلسطینی امور کے ذمہ دار امریکی قونصل خانے کا درجہ کم کرنا علامتی ہے مگراس کے مشرقی بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے اور غرب اردن کو صہیونی ریاست کی عمل داری میں دینے کی سازشوں کو تقویت ملے گی۔ اگرچہ عملی طورپر اسرائیل کو غرب اردن پر قبضے کے لیے بیروکریسی فنی تبدیلیوں سے گذرنا ہوگا۔ تاہم اس کے باوجود امریکی حکومت کے اقدام کے مقامی سیاست پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا گیا تھا۔
امریکا کی جانب سے فلسطین میں یہودی آباد کاری کی مخالفت کے بجائے اس کی حمایت کی جا رہی ہے جس سے امریکا کی فلسطینیوں کے بارے میں پالیسی بالخصوص آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی مساعی کے حوالے سے واشنگٹن کی اسرائیل کی طرف داری صاف کھل کر سامنےآئی ہے۔