چین دنیا کو اپنی محیرالعقول ٹیکنالوجی سے آئے روز متاثر کرتا رہتا ہے۔ حال ہی میں چین نے ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے ایک اسمارٹ عدالت متعارف کرائی ہے جس میں جج انسان کے بجائے روبوٹ مقرر کیا گیا ہے۔
اگرچہ اس طرح کی عدالت پر انسانی حقوق کے حلقوں اور سماجی تنظیموں کی طرف سے سوالات بھی اٹھ رہےہیں تاہم چین نے اپنی نوعیت کایہ منفرد تجربہ کیا ہے۔
عدالت میں پراسیکیوٹر جنرل وکلاء ، مدعی اور مدعا علیھان پیش ہوں گے مگر ان کے کیسز کی شروع سے آخر تک سماعت روبوٹ جج ہی کرے گا۔
چین کے ایک جج شیا وانگ شیون کا کہنا ہے کہ 70 فی صد کیسز میں مدعی اور مدعا علیھان کا ذاتی طورپر پیش ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے مصنوعی ذہانت کا ایک نیا راستہ کھولا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا سفر روبوٹ کاتب سے بڑھ کر انسانی مسائل کے حل اور ان پر بحث کے لیے بھی استعمال ہونے لگا ہے۔
خیال رہے کی چین میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے اسمارٹ عدالت کا قیام اگست 2017ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔