کل سوموار 30 اپریل 2018ء کو فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کواٹر رام اللہ میں فلسطین نیشنل کونسل کا نو سال کے بعد متنازع اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس غیرآئینی صدر محمود عباس کی طرف سے غیرآئینی تنظیم آزادی فلسطین کے ڈھانچے کی موجودگی میں ہوا۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد کیا گیا جب قضیہ فلسطین حساس دور سے گزر رہا ہے۔ عجلت میں نیشنل کونسل کا اسرائیلی قبضے میں اجلاس منعقد کرنا اور وہ بھی نمائندہ فلسطینی قیادت کو نظر انداز کر کے اجلاس بلانا کئی طرح کے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے تجزیہ نگاروں کی آراء کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو محمود عباس کی دعوت پر نیشنل کونسل کے رام اللہ میں انعقاد کے بعد اٹھنے لگے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت محمود عباس خود بھی ایک غیرآئینی صدر ہیں۔ ان کی آئینی مدت صدارت ختم ہوچکی ہے مگر اس کے باوجود وہ منصب صدارت سے چمٹے ہوئے ہیں۔ نیشنل کونسل کو ڈھال بنا کر وہ اپنی غیرآئینی حیثیت کو آئین کا لبادہ پہنانے کی مذموم کوشش کررہے ہیں چاہے اس کے لیے انہیں قوم کے مفادات اور دیرینہ اصولوں کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔
انہوں نے دانستہ طور پر فلسطینی مزاحمتی قوتوں بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی تنظیموں کو نیشنل کونسل کے اجلاس سے دور رکھا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اسلامی جہاد، حماس اور عوامی محاذ جیسی بڑی فلسطینی سیاسی قوتوں کو نظرانداز کر کے فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس کیسے منعقد کیا جاسکتا ہے جب کہ کئی دوسری سرکردہ شخصیات نے بھی اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ یہ اجلاس قومی اتفاق رائے کے تحت منعقد نہیں کیا گیا۔
اس کونسل کے نئے ارکان فلسطینی قوم کی طرف سے قوت فیصلہ کے کیسے نمائندگی کرسکتے ہیں حالانکہ انہیں فلسطینی قوم کی تمام قوتوں کی طرف سے منتخب نہیں کیا گیا۔
مخصوص گروہ کی نمائندگی
فلسطینی تجزیہ نگار مامون ابو عامر نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہی سوالوں کے جواب دیئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں جمہوریت کے مخالف منطق چل رہی ہے۔ اقوام اور عوام کی نمائندگی نام کی کوئی چیز نہیں۔ جہاں کہیں جمہوریت ہے بھی تو وہاں پر عوام کی حکومت نہیں۔ فلسطین میں بھی یہ تماشا رچایا جا رہا ہے۔
تجزیہ نگار ابو عامر کا کہنا ہے کہ فلسطین نیشنل کونسل تمام فلسطینی قوتوں کی نمائندہ نہیں۔ مگر اس کے پاس اختیارات موجود ہیں۔
کونسل کے ارکان کے پاس فلسطینی اتھارٹی کے عہدے نہیں ہونے چاہئیں مگر ایسا نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے کئی عہدیدار نیشنل کونسل کے رکن ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگارعبدالستار قاسم نے کہا کہ فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس کسی ایک گروپ کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ اس میں شرکت کرنے والوں کے خلاف عدالت میں مقدمات قائم کیے جانے چاہئیں۔ اس کےفیصلے فلسطینی قوم کے لیے تسلیم کرنا ضروری نہیں کیونکہ حقیقی معنوں میں یہ کونسل فلسطینی قوم کی مجموعی ترجمانی نہیں کرتی۔
آمریت تقویت دینے کی کوشش
تجزیہ نگار عبدالستار قاسم نے کہا کہ فلسطین نیشنل کونسل کے متنازع اجلاس کے فیصلے بھی متنازع رہیں گے۔ قومی سطح پر اس کے فیصلوں کا مستقبل میں کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑے گا۔
اس کے علاوہ ضروری نہیں کہ اس کے فیصلوں کو نافذ العمل کیا جائے گا۔ تنظیم آزادی فلسطین کی مرکزی کونسل نے14 جنوری کو اسرائیل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا مگر فلسطینی اتھارٹی نے اس پرعمل درآمد نہیں کیا حالانکہ مرکزی کونسل کا اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے 39 دنوں کے بعد منعقد کیا گیا تھا۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس اس وقت تعصبات کی منطق پر عمل پیرا ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اس وقت قوم کی نمائندگی نہیں کرتی۔ صدر عباس متنازع ہوچکے ہیں۔ وہ اپنی آمریت بچانے کے لیے نیشنل کونسل کا سہارا لینے اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دے رہے ہیں۔
تجزیہ نگار ابو عامر کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں فلسطینی قوم کو اتحاد کی جتنی ضرورت ہے ماضی میں کبھی نہیں تھی۔ فلسطین میں ایک قومی سیاسی نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اپنی آئینی حیثیت کھو چکی ہے۔