شنبه 16/نوامبر/2024

ٹرمپ کا امن منصوبہ فلسطینی قوم کے منہ پرطمانچہ ہے:عباس

منگل 1-مئی-2018

فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اسرائیلی دشمن کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے تنازع فلسطین کے حل کے لیے عالمی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق کل سوموار کو رام اللہ میں ہونے والے نیشنل کونسل کے متنازع اجلاس سے خطاب میں صدر محمود عباس نے غزہ کی پٹی پر عاید کردہ پابندیاں ختم کرنے کے بجائے انہیں برقراررکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے امریکی حکومت کی طرف سے القدس کو صہیونی ریاست کا صدر مقام تسلیم کرنے اور یہودی آباد کاری کے تسلسل کے باوجود اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ عرب لیگ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا چاہیے۔ وہ رواں سال کے وسط میں فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے حل کے لیے عالم امن کانفرنس بلانے پر زور دیا۔

فلسطین کی داخلی صورت حال کی بہتری کے لیے محمود عباس کی طرف سے فلسطینی قوم کو کوئی خوش خبری نہیں سنائی گئی۔ انہوں نے غزہ کی پٹی کےعوام کے خلاف جاری انتقامی سیاست کا دفاع کیا اور کہا کہ غزہ پر پابندیاں وزیراعظم رامی الحمد اللہ کے قافلے پر حملے کا رد عمل ہیں۔

انہوں نے حماس پر زور دیا کہ وہ گزہ کی پتی میں تمام محکموں کے اختیارات قومی حکومت کے سپرد کرے۔

صدر ابو مازن کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں میں مصالحت کےحوالے سے انہوں نے موثر کوششیں کیں۔ فلسطینیوں میں مصالحت کاری کے نگران مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے کہا کہ یا تو حماس تمام ذمہ داریاں ہمارے حوالے کرے یا غزہ کا انتظام خود چلائے۔

انوہں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے بار بار مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ڈیلوں کا ذکر سنا مگر موجودہ امریکی حکومت نے ایک ایسی تجویز پیش کی ہے جسے فلسطینی قوم کے منہ پر طمانچہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا امریکا کی صدی کی ڈیل یہ کہ فلسطینی قوم کو القدس سے محروم کردیا جائے۔ ہم نے امریکی صدر پر واضح کردیا ہے کہ ہم ایسی کوئی ڈیل قبول نہیں کریں گے جس میں فلسطینیوں کے حق واپسی کی نفی، فلسطین میں یہودی آباد کاری کی حمایت اور القدس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کی بات کی گئی ہو۔ ہم ایسی کسی تجویز پر غور بھی نہیں کریں گے۔

صدر عباس نے کہا کہ ہم فلسطین کے دو ریاستی حل سے کم پر راضی نہیں۔ فلسطینی ریاست چار جون 1967ء کی جنگ سے پہلے والے فلسطینی علاقوں پر قائم کی جائے گی جس میں مشرقی بیت المقدس کو اس کے دارالحکومت کا درجہ حاصل ہوگا۔

 

مختصر لنک:

کاپی