اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے فلسطینیوں کے درمیان مصالحت اور تمام فلسطینیوں کی نمائندہ نیشنل کونسل قوم کو متحد کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے محصور عوام کے خلاف جو انتقامی کارروائی اسرائیل نہ کر سکا وہ فلسطینی اتھارٹی کےسربراہ محمود عباس نے کر دکھائی۔
ڈاکٹر ابو مرزوق نے ان خیالات کا اظہار ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حماس کے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد نے قاہرہ میں مصری انٹیلی جنس کے وزیر عباس کامل اور ڈائریکٹر انٹیلی جنس چیف سے ملاقات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مصری بھائیوں اور حماس کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کے حوالے سے مصر کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ حماس سنہ 2011ء اور 2017ء کے دوران مصر کی طرف سے پیش کردہ مفاہمتی فارمولے پر عمل درآمد کرانے کے لیے تیار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ حماس نے واضح اسباب کی بناء پر فلسطین نیشنل کونسل کے اجلاس میں شرکت کا بائیکاٹ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مصر فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت میں تاخیر کا ایک سبب تحریک فتح کی اس اہم قومی مسئلے میں عدم دلچسپی بھی ہے۔ صدر محمود عباس اور فتح کی مرکزی کمیٹی قومی مفاہمت کے خلاف فیصلے کررہےہیں۔ ایسے میں مفاہمتی مساعی کو کیسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خوف ہے کہ غزہ کی پٹی کے بارے میں فلسطینی اتھارٹی کی پالیسی حماس اور فتح کو آپس میں مزید الجھا سکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ صدر محمود عباس قومی مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے غیر لچک دار پالیسی پرقائم ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ حماس کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی حکومت غزہ کے عوام کے حوالے سے انتقامی پالیسی ترک کرے اور امتیازی سلوک کے بجائے غزہ کے عوام کو ہرممکن ریلیف فراہم کرے مگر تحریک فتح کی طرف سے ایسا کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ سنہ 2017ء میں صدر محمود عباس نے غزہ کے عوام کے خلاف مزید انتقامی حربے استعمال کیے جس کے نتیجے میں غزہ کے عوام میں تحریک فتح اور صدر عباس کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے جو کام اسرائیل نہ کرسکا وہ صدر محمود عباس کی انتقامی سیاست نے کردکھایا۔
فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس
ڈاکٹر ابو مرزوق نے اپنے انٹرویو میں فلسطین نیشنل کونسل کے رام اللہ میں بلائے گئے اجلاس کے حوالے سے جماعت کی پالیسی کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ صدر محمود عباس نے تمام قومی دھڑوں کو اعتماد میں لیے بغیر فلسطین نیشنل کونسل کا رواں ماہ کے آخر میں اجلاس بلالیا۔ حماس، اسلامی جہاد اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین سمیت کئی دوسری جماعتوں اور اہم شخصیات نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔
انہو نے کہا کہ تحریک فتح قضیہ فلسطین کو یرغمال بنانا چاہتی ہے۔ اس کے خیال میں جو اس کے ساتھ نہیں وہ قومی اجماع سے باہر ہے۔ ہم تحریک فتح کی پالیسی کی حمایت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اصولی موقف اپناتے ہوئے رام اللہ میں فلسطین نیشنل کونسل کے اجلاس میں شرکت کا بائیکاٹ کیا ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ڈاکٹر مرزوق نے کہا کہ سنہ 2017ء میں یہ طے پایا تھا کہ فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس فلسطین سے باہر کسی دوسرے ملک میں ہوگا مگر صدر محمود عباس نے بعد ازاں اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
حماس نے فلسطین نیشنل کونسل کے اجلاس کی میزبانی بیروت کے ذمہ لگانے کی تجویز دی۔ اس حوالے سے لبنانی اسپیکر نبیہ بری سے بات چیت بھی ہوئی۔ بیروت میں فلسطینی سفیر نے بھی اتفاق کیا مگر صدر محمود عباس نے تجویز مسترد کردی۔