جسمانی وزن کے بڑھنے اور پیٹ کے پھول جانے سے ہر دوسرا شخص پریشان ہے۔ موٹاپے سے نجات کے لیے نہ صرف اپنی روز مرہ کی خوراک میں تبدیلی کی کوششیں کی جاتی ہیں بلکہ بہت سی کھانے پینے کی چیزوں کے استعمال سے اجتناب برتا جاتا ہے۔
شاید بعض لوگوں کا خیال ہو کہ میکرونی وزن بڑھانے کا موجب ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ موٹاپے سے پریشان افراد کو میکرونی سے پریشان ہرگز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ جسم کے لیے ضرور رساں نہیں۔
سائنسی جریدے ’بی ایم جی اوپن‘ میں شائع کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ میکرونی ’چھانے ہوئے اناج‘ سے تیار کی جاتی ہے مگر اس میں گلائسمی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ یعنی میکرونی خون میں گلوکوز کی مقدار تیزی کے ساتھ نہیں بلکہ رفتہ رفتہ اور بہ تدریج جاری کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ میکرونی اور موٹاپے کے تعلق کو جانچنے کے لیے 32 تجربات کیے گئے۔ ان تجربات سے ثابت ہوا کہ غذائی نظام میں میکرونی موٹاپے میں اضافے کا موجب نہیں بن سکتی۔
سینیر محقق جون سیفنپائبر کا کہنا ہے کہ ہم نے چاول، روٹی اور میکرونی کا کاربوہائیڈریٹ پر حقیقی حملہ ملاحظہ کیا۔ اس کے بعد ہم اس سوال کے جواب کی تلاش میں مگن ہوگئے کہ آیا میکرونی کا جسم پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا یا بلاگز میں موجود بیانات حقائق کے برعکس ہیں۔
اس دوران موٹاپے کے شکار 2448 افراد کا تجزیہ کیا گیا اور ان کے اوزان میں ہونے والی تبدیلی کا جائزہ لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ میکرونی کھانے یا ترک کرنے سے موٹاپے پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑتا۔