ارض فلسطین پر سنہ 1948ء میں صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے پہلے اور اس کے بعد آج تک گذرنے والا ہردن اہل فلسطین کے خون ناحق کی ہولناک داستان لیے ماضی کا حصہ بنتا رہا مگر کچھ ایام فلسطینیوں پر صہیونیوں کے منظم مظالم اور بربریت کے حوالے سے دہشت کی ایک یادیں اور گہرے گھاؤ چھوڑ گئے کہ جنہیں تا قیامت آنے والے صہیونیوں کی سفاکیت کی بدترین مثال کے طورپر یاد کرتے رہیں گے۔
فلسطینیوں کے منظم قتل عام کے انہی ہولناک واقعات میں ’’دیر یاسین‘‘ قصبے میں فلسطینیوں کو خون بہانے کا کرب ناک واقعہ بھی شامل ہے۔ دیر یاسین قصبے میں قتل عام بھی اہل فلسطین کی اجتماعی خون ریزی کی ہولناک یادوں میں ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ ہر سال 9 اپریل کی صبح اہل فلسطین پر اس واقعے کی ہولناک یادوں کے ساتھ تازہ ہوتی اور بار دگر برسوں قبل لگائے زخموں کی یاد تازہ کرتی چلی جاتی ہے۔ درحقیقت دیر یاسین قتل عام کا واقعہ ایک ایسا گھاؤ اور گہرا زخم ہے جسے کم سے کم فلسطینی قوم ہمیشہ اپنی تاریخ کے انتہائی ہولناک واقعات کے طورپر یاد رکھے گی۔
نو اپریل اور 10 اپریل کی درمیانی شب سنہ 1948ء کو قیام اسرائیل سے چند ہفتے ہی پیشتر مقبوضہ بیت المقدس کے مغربی قصبے ’’دیر یاسین‘‘ دو یہودی دہشت گرد گروپوں ’’ارگون‘‘ اور ’’شیٹرن لیحی‘‘ کے مسلح دہشت گردوں نے رات کی تاریکی میں دیر یاسین کے نہتے بچوں، خواتین اوربوڑھوں پرشب خون مارا۔ بزدل صہیونیوں کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ انہوں نے دیر یاسین پر شب خون مارنے کا یہ بزدلانہ منصوبہ اس وقت تیار کیا جب قصبے کے تمام مرد’’معرکہ قسطل‘‘ میں مصروف تھے اور باقی ماندہ مفتی فلسطین الحاج امین الحسینی کی تدفین میں شرکت کے لیے گھروں سے باہر تھے۔
یوں مردوں سے خالی دیکھ کر صہیونی دہشت گردوں نے نہتے فلسطینی بچوں اور خواتین کو تہہ تیغ کرنا شروع کردیا۔ صہیونیوں کی اس منظم دہشت گردی کی سرپرستی کوئی عام یہودی شخصیات نہیں بلکہ سرکردہ لیڈر کررہے تھے۔ ’’ارگون‘‘ دہشت گرد گروپ کی قیادت بعد میں اسرائیل کے وزیراعظم کے عہدے پر فائزہونے والے مناخیم بیگن اور شیٹرن لیحی کی قیادت بیگن کے بعد اس عہدے پر فائز ہونے والے اسحاق شامیرا کے ہاتھ میں تھی۔
صہیونی دہشت گردوں کی جب رات کی تاریکی میں دیر یاسین پردھاوا بولا اور اس وقت اس کی کل آبادی 750 نفوس پرمشتمل تھی، جن میں بیشتر بچے اور خواتین شامل تھیں۔ یہودی دہشتگردوں نے فلسطینی شہریوں کے مکانوں کو بارود سے اڑانا شروع کیا اور اگلی صبح تک 100 خواتین اور بچوں سمیت دو سو سے زاید فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا تھا۔ قصبے کے 144 مکانات میں سے بیشتر کو بلڈوز کردیا گیا۔ پرامن اور نہتے فلسطینیوں نے اپنی جانی بچانے کے لیے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی مگر صہیونی مسلح دہشت گردوں نے قصبے کے تمام اطراف کی ناکہ بندی کررکھی تھی۔ 13 اپریل کو امریکی اخبار’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں ریڈ کراس کے مندوب ڈاکٹر جاک ڈو رینیہ کے جمع کردہ اعدادو شمار شائع کیے جن میں بتایا گیا کہ یہودی غنڈوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 360 فلسطینی مردو زن، بچے اور بوڑھے شہید کیے جا چکے ہیں جنہیں قصبے کے مختلف قبرستانوں میں اجتماعی قبروں کی شکل میں دفن کیا گیا۔
اپنی جانی کسی طرح بچا کرنکل جانے والے عینی لٹے پٹے فلسطینیوں نے بتایا کہ وحشی صہیونی نہ صرف فلسطینیوں کو اندھا دھند گولیاں مار کرشہید کرتے رہے بلکہ لاشوں کے مثلے تک بنائے گئے۔ بچوں کو ماؤں کی گود سے چھین کرسنگینوں میں پرویا گیا۔ شیر خواروں کو ان کی ماؤں کے سامنے ذبح کیا گیا اور روتی چلائی ماؤں پر پٹرول چھڑک کرانہیں زندہ جلانے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ مردوں کے ہاتھ اورپاؤں کاٹے جاتے اور ان کےاعضاء تناسل کو نہایت بے دردی سے کاٹ کرانہیں اذیتیں دے دے کر شہید کیا جاتا۔ نوجوان اور کم عمربچیوں کی سرعام عزتیں تار تار کی جاتیں اور پھرانہیں بدترین اذیتیں دے کران کے ماں باپ اور بھائیوں کی بسی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا۔
دیر یاسین میں قتل عام نہ ہوتا تواسرائیل بھی نہ ہوتا
دیر یاسین قصبے کی مختلف کالونیوں سے یرغمال بنائے گئے 53 بچوں اور 25 بڑی عمر کے مردوں کو ٹرکوں میں باندھ کر ڈالا گیا اور انہیں پرانے دور کے رومن فوجی دہشت گردوں کے طرز پر ایک اونچی جگہ کھڑے کرکے گولیاں سے بھون دیا گیا۔ تمام شہیدوں کے جسد خاکی گاؤں کے ایک پرانے کوئیں میں پھینک دی گئیں اور اگلے روز یہ مشہور کردیا گیا کہ یہ لوگ آپس میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔
ایک مقامی فلسطینی احمد مصطفیٰ کاکہنا ہے کہ صہیونی فوج نے دیر یاسین میں جو قیامت برپا کی وہ صہیونی درندگی کے جرائم میں سے ایک بڑا اور سنگین جرم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دیر یاسین میں فلسطینیوں کا قتل عام نہ ہوتا تو ارض فلسطین میں صہیونی ریاست بھی قائم نہ ہوگی۔
دیریاسین واقعے میں ملوث سفاک صہیونیوں نے جس وحشت وبربریت کا مظاہرہ کیا اس سے کہیں زیادہ اسرائیلی حکومت اور عدالتوں کی جانب سے کیا گیا جب 32 سال کے بعد بڑے فخر اور گھمنڈ کے ساتھ عدالتوں کی جانب سے فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل میں ملوث ارگون، اٹزل اور البالماخ گروپوں کے یہودیوں کو باعزت بری کردیا گیا۔
دیر یاسین میں فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام میں ملوث صہیونیوں کو قیام اسرائیل کےبعد بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا گیا۔ انہی میں مناخیم بیگن کا نام بھی شامل ہے جو اسرائیل کا وزیراعظم بھی بنا۔ اس نے اپنی کتاب ’’انقلاب‘‘ میں تسلیم کیا ہے کہ دیر یاسین جیسے فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام ہی کے وہ واقعات ہیں جنہوں نے ساڑھے چھ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑںے پرمجبور کیا۔ اگر یہودیوں کے ہاتھوں دیر یاسین میں قتل عام نہ ہوتا تو اسرائیل کا قیام ممکن نہ تھا۔
دیر یاسین میں قتل عام کے ساتھ ساتھ وہاں پرموجود فلسطینیوں کےتمام ڈیڑھ سو گھرملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیے گئے۔ ستمبر 1948ء کو دیر یاسین قصبے میں فلسطینیوں کی کھنڈر میں تبدیل کردہ اس تاریخی قصبے میں رومانیہ، پولینڈ اور سلواکیہ سے آرتھوڈوکس یہودیوں کو لا کر وہاں بسایا گیا۔ گوکہ میرٹن بوبر اور سیسل روتھ نامی یہودی لیڈروں نے دیر یاسین کے قصبے کو غیرآباد رکھنے ہی پر زور دیا مگرصہیونی ریاست تل ابیب کو وسعت دیتے ہوئے اس قصبے تک لانے کے لیے کوشاں رہی۔ صہیونیوں نےدیر یاسین قصبے کو’’گیوت شاؤل بیت‘‘ کا نام دیا اور یہاں پر’’ہرنوف‘‘ نامی ایک یہودی کالونی آباد کار کے وہاں پر سیکڑوں یہودی آباد کار بسائے گئے۔
فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کے ان گنت واقعات کی طرح دیر یاسین میں ہونے والا کشت وخون بھی عالمی برادری مجرمانہ غفلت کا پیچھا کرتا رہے گا۔ جب تک ان معصوموں کے خون کا حساب نہیں لیا جاتا عالمی برادری کو بھی نہتے فلسطینیوں کے قتل عام سے بری نہیں کیا جاتا کیونکہ فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی قیامت کا تذکرہ جب اور جہاں بھی کیا جاتا ہے تو عالمی اداروں کی زبانیں گونگی، کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔