چین سے موصول ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ناکارہ چینی خلائی سٹیشن زمین کے فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی زیادہ تر بکھر گیا اور جنوبی بحرالکاہل میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرا۔
چین کے انسانی خلائی انجینیئرنگ آفس نے بتایا کہ یہ زمین کی خلائی حدود میں گرینچ کے معیاری کے وقت کے مطابق رات 12 بج کر 15 منٹ (پاکستان میں صبح پانچ بج کر 15 منٹ) پر داخل ہوا۔
تیانگونگ 1 نامی یہ مصنوعی سیارہ چین کے پرعزم خلائی پروگرام کا حصہ تھا اور 2022 میں ایک انسان بردار سٹیشن قائم کرنے کے منصوبے کی پہلی کڑی۔
آٹھ ٹن وزنی اس خلائی گاڑی کو سنہ 2011 میں مدار میں چھوڑا گیا تھا لیکن سنہ 2016 میں اس نے کام کرنا بند کر دیا۔
خلائی حکام کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی بحرالکاہل پر گرا ہے لیکن یہ ایک وسیع خطہ ہے۔
ہارورڈ سمتھسونین سینٹر کے خلاباز جوناتھن میک ڈاول نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تاہیٹی کے شمال مغرب میں گرا ہے۔
ماہرین کو اس کے گرنے کی جگہ کے تعین میں مشکلات کا سامنا تھا اور چینی خلائی ایجنسی نے اس کے زمین کے فضائی حدود میں داخل ہونے سے ذرا قبل یہ بات کہی کہ یہ برازیل کے ساؤ پالو سے دور گرے گا جو کہ غلط اندازہ تھا۔
یورپی سپیس ایجنسی نے پہلے ہی کہا تھا کہ تیانگونگ-1 سمندر پر ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔ اس نے کہا تھا کہ اس کے ملبے کا کسی شخص پر گرنے کا امکان کسی شخص کے آسمانی بجلی کی زد میں آنے سے ایک کروڑ گنا کم ہے۔
بہر حال ابھی یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ کتنا ملبہ زمین پر سالم گرا ہے۔
اصولی طور پر دس میٹر لمبے تیانگونگ کو مدار سے منصوبہ بند طریقے سے ہٹایا جانا چاہیے تھا۔ روایتی طور پر اس بڑی خلائی گاڑی پر تھرسٹر داغ کر اسے جنوبی سمندر کے دور دراز علاقے میں گرانا چاہیے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمانڈ کا رابطہ منقطع ہونے کے بعد وہاں یہ آپشن نہیں رہ گیا تھا۔
یورپی سپیس اینجسی کی قیادت میں 13 سپیس ایجنسیاں راڈار اور دوربین کے ذریعے تیانگونگ کے گرنے کے عمل پر نظر رکھ رہے تھے۔