فلسطینی قوم مارچ کے آخری ہفتے بالخصوص 30 مارچ کو ’ قومی یوم الارض‘ مناتے ہیں۔ فلسطینی قوم نے اس دن کے منانے کا سلسلہ 42 سال پیشتر 1976ء میں کیا۔ یہ دن منانے کا مقسد فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کے دفاع اور اس ارض وطن کے ساتھ اپنی وابستگی کے عزم کا اعادہ کرنا ہے جس پر فلسطینی قوم جدی پشتی چلی آ رہی ہے۔
یہ دن نہ صرف اندرون فلسطین منایا جاتا ہے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے فلسطینی اس دن کو پورے قومی جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔ اس روز فلسطینی قوم اپنے حق خود ارادیت کے حصول اور حق واپسی کے عزم کا اعادہ کرتے اور دنیا کو یاد دلاتے ہیں وہ ’قوم بے زمین‘ نہیں بلکہ ایک ایسی قوم ہیں جس کا اپنا صدیوں پرانا وطن ہے۔
’یوم الارض‘ کی مناسبت سے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ نے فلسطین کے جیوگرافیائی اور طبعی حالات کا جائزہ لیا ہے۔
’یوم الارض‘ دراصل فلسطین کے اس 27 ہزار نو مربع کلو میٹر کےعلاقے کے استعمال ہوتا ہے جس پر صہیونی ریاست نے سنہ 1948ء یا اس کے بعد ناجائز تسلط قائم کیا۔
فلسطینیوں نے یہ دن اس وقت منانے کا فیصلہ کیا جب سنہ 1970ء کے عشرے میں اسرائیل نےشمالی فلسطین کے شہروں میں نام نہاد ترقیاتی پروگراموں کی آڑ میں فلسطینی زمین بڑے پیمانے پر تسلط قائم کرنا شروع کیا۔ صہیونی حکومت نے’الجلیل ڈویلپمنٹ‘ نامی پروجیکٹ لانچ کیا جو ترقیاتی پروگراموں کی آڑ میں دراصل الجلیل شہر کو یہودیانے کی ایک مذموم سازش تھی۔ فلسطینی قوم نے صہیونی ریاست کے اس غاصبانہ پروگرام کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی تحریک چلائی۔ الجلیل، النقب، اور دوسرے فلسطینی علاقوں میں فلسطینی سڑکوں پر نکل آئے۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج نے منظم ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 6 فلسطینیوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی اور سیکڑوں کو حراست میں لے لیا۔
یہ 30 مارچ 1976ء کا دن تھا۔ فلسطینی سپریم فالو اپ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1976ء کے صہیونی غاصبانہ پلان کے بعد فلسطینیوں کی 15 لاکھ دونم اراضی غصب کی چکی جبکہ فلسطینی آبادی کے پاس صرف 5 لاکھ دونم رقبہ باقی رہ گیا ہے۔
قیام اسرائیل سے قبل فلسطین کو زرعی ملک قرار دیا جاتا تھا اور فلسطینیوں کی اکثریت زراعت پیشہ ہونے کے باعث نہ صرف خود بھی خوش حال تھی بلکہ فلسطین میں اگایا جانے والا اناج دوسرے ملکوں کو بھی بھیجا جاتا تھا۔ اس وقت 75 فی صد فلسطینیوں کا ذریعہ معاش صرف زراعت تھی۔ سنہ 1948ء میں ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کے ناسور کے قیام کے دوران فلسطینی آبادی کی بھاری تعداد کو زبردستی شہروں سے نکال باہر کیا گیا۔ ان کی املاک، گھروں اور زمینوں پر بیرون ملک سے لائے گئے یہودی گماشتے آباد کیے گئے۔ لاکھوں فلسطینیوں کی آبادی میں صرف 1 لاکھ 56 ہزار فلسطینی باقی رہ گئے۔
طبعی اور جغرافیائی حالات
فلسطین بحر متوسط کے مشرقی ساحل پر 34.15 طول بلد اور گرینچ کے مشرقی درجے میں 35.40 درجے پرواقع ہے جب کہ 32.15 عرض بلد اور 29.30 شمالی درجے میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں شام اور اردن، شمال میں لبنان اور بلاد شام کا کچھ علاقہ جنوب میں مصر اور خلیج عقبہ واقع ہیں اور اس کا کل رقبہ 27009 مربع کلو میٹر ہے۔
رقبہ کم ہونے کے باوجود ارض فلسطین کی تکوین کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں ہرحصہ اپنی سطح زمین، نباتات اور موسموں کے اعتبار سے دوسرے سے منفرد ہے۔ فلسطین کا کچھ علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ پہاڑی علاقے ساحلی سمندر کے ساتھ ساتھ ہیں۔ ان مین مرج ابن عامر پہاڑی سلسلہ زیادہ مشہور جو کل فلسطین کے پہاڑی علاقوں کا 17 فی صد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 50 فی صد رقبے پرجزیرہ نما النقب واقع ہے جو پہاڑی سلسلے کے ساتھ مل کر فلسطین کے کل رقبے کا 28 فی صد بنتا ہے۔
وادی اردن فلسطین کا کل 5 فی صد علاقہ ہے۔ سنہ 1939ء میں برطانوی استبداد کے دور میں فلسطین کو چھ گورنریوں میں تقسیم کیا گیا۔ الجلیل لبنان کی سرحد سے متصل فلسطین کے اقصائے شمال میں واقع پہلی گورنری تھی۔ اس کا مرکز الناصرہ شہر تھا۔
اس کے پانچ اہم ذیلی علاقے عکام بیسان، صفد اور طبریہ تھے۔ سنہ 1945ء میں اس کی آبادی 2 لاکھ 31ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور اس کا رقبہ 2.801.383 دونم یعنی فلسطین کے کل رقبے کا 10.4 فی صد تھا۔
حیفا گورنری کا مرکزی شہر حیفا ہی تھا۔ اس کا کل رقبہ 1.031.755 دونم یعنی فلسطین کے کل رقبے کا محض 3.8 فی صد اور آبادی 2 لاکھ 42 ہزار 630 تھی۔
نابلس گورنری کا مرکزی شہر بھی نابلس ہی تھا مگر اس میں جنین اور طولکرم شہر بھی شامل تھے۔ اس کا رقبہ 3.262.292 دونم تھا جوکہ فلسطین کے کل رقبے کا 12.1 فی صد تھا، اس علاقے کی آبادی 2 لاکھ 32 ہزار 220 نفوس پر مشتمل تھی۔
القدس گورنری فلسطین کے وسط میں واقع تھی اس کا مرکزی شہر مقبوضہ بیت المقدس تھا۔ اس میں القدس، بیت المقدس، اریحا، الخلیل اور رام اللہ شامل تھے۔ اس گورنری کا کل رقبہ 4.333.534 دونم تھا جو کہ فلسطین کے کل رقبے کا 16 فی صد اور آبادی 3 لاکھ 84 ہزار 880 نفوس پرمشتمل تھی۔
اللد گورنری کا مرکزی شہر یافا تھا، اس کے علاوہ الرملہ کا علاقہ بھی اسی کا حسہ تھا۔ یہ علاقہ بیشتر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا کل رقبہ 1.205.558 دونم جو کہ فلسطین کے کل رقبے کا 4.5 فی صد اور سنہ 1948ء میں آبادی 501070 نفوس پر مشتمل تھی۔
غزہ گورنری جنوبی فلسطین کا حصہ تھی جس میں ساحلی پہاڑی علاقے، جزیرہ نما النقب،بئر سبع، اور بعض دوسرے فلسطینی علاقے شامل تھے۔ اس کا کل رقبہ 13.688.501 دونم تھا یعنی فلسطین کے مجموعی رقبے کا 50.7 فی صد اور اس کی آبادی 190880 تھی جس کا فی کلو میٹر تناسب 14 افراد پر مشتمل تھا۔
مذکورہ تقسیم کے اعتبار سے صہیونی ریاست اس وقت تاریخی فلسطینی سرزمین کے 85 فی صد علاقے پر قابض ہے اور فلسطینیوں کے پاس تاریخی زمین کا کل 15 فی صد رقبہ بچا ہے۔ گویا 48 فی صد فلسطینی قوم اپنے اصل رقبے کے پانچ گنا کم پر رہ رہے ہیں۔
فلسطینیوں کو درپیش چیلنجز
صہیونی ریاست تاریخی فلسطینی رقبے کے 85 فی صد پرقابض ہے۔ فلسطینیوں کے پاس صرف 15 فی صد فلسطینی اراضی بچی ہے۔ صہیونی ریاست فلسطینی علاقوں کو مزید تقسیم کرنے کے لیے سرگرمم عمل ہے تاکہ تاریخی فلسطینی علاقوں میں فلسطینی آبادی کو ہرجگہ48 فی صد سے کم کرکے انہیں اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غاصب صہیونیوں کی نسبت فلسطینیوں کے پاس پانچ گنا کم اراضی بچی ہے۔
فلسطینی قوم کو صہیونی ریاست کی طرف سے کئی دوسرے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صہیونیت نواز پالیسی ہے جس کے نتیجے میں صہیونی ریاست کوفلسطین پر اپنے توسیع پسندانہ تسلط کو وسعت دینے کا جواز مل گیا ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارا اور بیت المقدس اس وقت صہیونی ریاست کا سب سے بڑا ہدف ہیں اور اسرائیل کسی نا کسی طرح ان تاریخی فلسطینی علاقوں کو فلسطینیوں سے چھیننا چاہتی ہے۔ دوسری جانب غزہ کی پٹی کا محاصرہ مزید سخت کیا جا رہا ہے جس کے باعث لاکھوں فلسطینی’یوم الارض‘ کے موقع پرسڑکوں پر نکل آئے ہیں۔