جمعه 15/نوامبر/2024

انتظامی قید فلسطینیوں کےخلاف اجتماعی سزا کی صہیونی پالیسی

ہفتہ 17-مارچ-2018

فلسطینی محکمہ امور اسیران کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں اسرائیلی حکام کے ہاتھوں فلسطینی شہریوں کو حراست میں لینے کے بعد انتظامی قید میں ڈالنے جانے کو فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی سزا قرار دیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی محکمہ امور اسیران ومحررین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انتظامی قید کی پالیسی فلسطینی اسیران اور ان کے اہل خانہ کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔ صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی سزا کو نئی شکل دے کراس میں کئی اضافے کرتے ہوئے اسے نسل پرستی اور نوآبادیاتی نظام کی بدترین شکل قرار دیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی شہریوں کی روزانہ کی بنیاد پر پکڑ دھکڑ اور بغیر کسی جرم کے انہیں غیرمعینہ مدت کے لیے زندانوں میں ڈالنان بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں صہیونی فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے فلسطینی پناہ گزینوں کو اجتماعی سزا دینے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کو بغیر کسی جرم اور قصور کے حراست میں لے کرانتظامی قید کے تحت قید کردیا جاتا ہے۔

حال ہی میں محکمہ اسیران کے مندوب باجس نخلہ نے عوفر جیل میں لوئی عکہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں لوئی عکہ نے کہا کہ انتظامی قیدی مسلسل 29 روز سے اسرائیلی عدالتوں کا بائیکاٹ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے احتجاجی بائیکاٹ کے باوجود صہیونی حکام ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے باز نہیں آئے۔

انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی جیل عوفر میں 17 عمر کے تین فلسطینی احمد صلاح، لیث ابو خرمہ اور حسام ابو خلیفہ  بھی انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل ہیں۔

انسانی حقوق کے فلسطینی ادارے کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست برطانوی استبداد کے سنہ 1945ء کے دور میں منظور کردہ ہنگامی حراستی قانون کے آرٹیکل 111 اور  چوتھے جنیوا معاہدے کے آرٹیکل 78 کی آڑ میں فلسطینی شہریوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیلی زندانوں میں انتظامی حراست کی پالیسی کے تحت 500 فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی