اسرائیلی حکومت نے فلسطینی شہریوں کو صہیونی ریاست کی اعلیٰ عدالتوں بالخصوص سپریم کورٹ میں مقدمات قائم کرنے کے لیے غیر مجاز قرار دینے کے لیے نیا قانون منظور کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی وزیر قانون ایلیت شاکید کی جانب سے کابینہ کہ قانون ساز کمیٹی میں پیش کردہ بل پر گذشتہ روز بحث کی گئی۔
نئے قانونی بل کا مقصد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان اراضی کے حوالے سے جاری تنازعات پر ممکنہ طور پر فلسطینیوں کے خلاف عدالتی فیصلوں کی روک تھام کرنا ہے۔ اس طرح کے تمام مقدمات کو بیت المقدس میں قائم مرکزی عدالت کو منتقل کرنا ہے۔
خاتون وزیرقانون ایلیت شاکید کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی منظوری کے بعد غیرملکی فنڈنگ سے اسرائیلی سپریم کورٹ میں بائیں بازو کی جماعتوں اور فلسطینیوں کو مقدمات کے قیام سے روکنا ہے۔
عبرانی ویب سائیٹ ’0404‘ کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات انتظامی عدالت کو سپرد کرنے کے تین اہم اہداف ہیں۔۔ پہلا یہ کہ یہودا اور السامراہ [دریائے اردن کے مغربی کنارے] کے علاقوں سے سامنے آنے والے فلسطینیوں کے تنازعات۔
دوسرا ہدف اسرائیلیوں کے خلاف فلسطینیوں کے مقدمات کے قیام کی راہ روکنا ہے اور یہودی آباد کاروں کے خلاف کارروائیوں کو مجسٹریٹ عدالتوں میں منتقل کرنا ہے اور فوج داری اور سول امور کو مرکزی عدالتوں میں لے جانا ہے۔
تیسرا ہدف اسرائیلی سپریم کورٹ پرمقدمات کا بوجھ کم کرنا ہے۔ فلسطینیوں کی طرف سے سالانہ دو ہزار سے زاید مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔ ان مُقدمات میں بیشتر فلسطینیوں کی طرف سے مکانات مسماری روکنے یا اراضی یہودیوں کے قبضے کے خلاف درخواستیں دی جاتی ہیں۔