کوئی ایک سال پہلے تک اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اسرائیل کے چوتھے امیر ترین سیاست دان شمار کیے جاتے تھے۔ لیبر پارٹی کے ’ارئیل مرگلیٹ‘ کی جانب سے استعفیٰ دینے کے بعد نیتن یاھو کا شمار تیسرے امیرترین صہیونی سیاست دان کا درجہ مل گیا۔ ان سے ایک درجہ دولت میں آگے بیت المقدس کے اسرائیلی میئر نیر برکات کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر تعلیم نفتالی بینت بھی نیتن یاھو سے زیادہ امیر ہیں۔ دونوںنے‘ہائیٹک‘ کے شعبے میں سرمایہ کاری ذریعے بیسیوں کروڑ ڈالر کی رقم سمیٹی جب کہ نیتن یاھو کی دولت کا اندازہ 42 ملین شیکل یعنی ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔
اسرائیل کے دیگر سیاسی رہ نماؤں کی دولت میں خزاں اور بہار آتی رہتی ہے اور اتار چڑھاؤ کا سلسلہ ان کی دولت کے پیمانے میں تبدیلی کا موجب بنتا ہے تاہم نتین یاھو واحد صہیونی سیاست دان ہیں جن کی دولت میں کمی تو نہیں آئی البتہ اضافہ ضرور ہوا۔ انہوں نے سنہ 1996ء اسرائیل کا اعلیٰ ترین منصب حاصل کیا اور شمعون پیریز سے انتخابات میں آگے نکل کر اسرائیل کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے۔
سنہ 1999ء کے پارلیمانی انتخابات میں نیتن یاھو کو شرمناک شکست ہوئی تو اس کے بعد ان کی دولت کے حوالے سےخبریں ایک ایک کرکے لیک ہونے لگیں ان انتخابات میں ایہود باراک نے نیتن یاھوکو شکست سے دوچار کیا۔ نیتن یاھو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے محروم ہوئے تو انہوں نے منصب صدارت کےعرصے کے دوران سمیٹی گئی رقوم اور تحائف سمیٹنا شروع کردیے۔ کئی گراں قیمت تحائف جو انہیں اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت سے ملے تھے وہ قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنے گھروں میں منتقل کرنا شروع کردیے۔ وہاں سے نیتن یاھو کی ہوس، لالچ اور نہ ختم ہونے والی دولت کی حرص کا اندازہ ہوا۔
نہ صرف نیتن یاھو بلکہ ان کی اہلیہ بھی قومی خزانے کو اپنے ذاتی مصارف میں استعمال کرنے اور قومی تحائف کو چھپانے میں نیتن یاھو کی دست راست تھیں۔ انہوں نے قومی خزانے میں جمع کرائے کے بجائے تحائف کو مال مفت دل بے رحم کے مصداق لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ قومی تحائف کو چھپانا ایک فوجداری جرم کے طورپر سامنے آیا۔ تاہم اس وقت کے حکومتی مشیر قانون اور دائیں بازو کے شدت پسند مذہبی یہودی الیکیم روبنچائن نے نتین یاھو کو مقدمات سے بچا لیا۔ انہوں نے پراسیکیوٹر جنرل کے سامنے نیتن یاھو کی بریت کے حق میں دلائل دیئے اور کہا گیا کہ نیتن یاھو کے خلاف عدالت میں مقدمات چلانے کے لیے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔
تاہم نیتن یاھو کی چور بازاری کے خلاف یکے بعد دیگرالزامات سامنے آتے رہے۔ کئی صحافیوں اور سیاست دانوں نے نتین یاھو کی کرپشن کی گواہیاں دینا شروع کیں۔ ان کے ایک سیاسی حریف نے نیتن یاھو کو بخیل ترین شخص اور مفت خور قرار دیا اور کہا کہ نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ دونوں ملک کر قومی تحائف کو چوری کرنے کے مرتب پائے گئے۔
لیکوڈ پارٹی کی قیادت ارئیل شیرون کے ہاتھ میں آنے اور سنہ 2006ء میں ’کدیما‘ پارٹی کی تشکیل تک بنجمن نیتن یاھو پس منظر میں چلے گئے۔ اس عرصے میں انہوں نے اپنے پرائیویٹ کاروبار پر توجہ دی۔ وہ امریکا اور دوسرے ملکوں میں لیکچر دیتے اور ان کے عوض پیسے کماتے۔ ایک لیکچر کے بدلے میں انہیں اوسطا 50 ہزار شیکل کی رقم ادا کی جاتی، امریکی کرنسی میں یہ رقم 14.2 ہزار ڈالر ہے۔ یوں نیتن یاھو کا شمار اسرائیل کے مہنگے ترین سیاسی مقررین میں ہونے لگا۔ انہوں نے خود کو ’انسداد دہشت گردی‘ کے امور کے ماہر کے طورپر متعارف کرانے کی کوشش کی۔ عراق کی جنگ کے دوران امریکی کانگریس کی کمیٹیوں کے سامنے اس جنگ کو جیتنے کے لیے مختلف طریقوں پر بحث میں حصہ لیا۔ انوہں نے عراق پر حملے پر اکسایا اور دعویٰ کیا کہ عراق کو غیر روایتی اسلحہ سے پاک کرنا ضروری ہے تاہم بعد میں عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔
اسی عرصے میں اسرائیل میں صحافیوں اور ارکان پارلیمان نے کنیسٹ میں نیتن یاھو کے شرمناک اسکینڈلز کو سامنے لانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
اخبار یدیعوت احرونوت کے نامہ نگار حاییم شیبی کا کہناہے کہ ایک بار نیتن یاھو نے انہیں کنیسٹ میں اپنی قیام گاہ پر انہیں مدعو کیا۔ اس موقع نیتن یاھو نے کہا کہ ان[حکومت] کا یہاں کوئی کھاتہ نہیں اور نہ ہی میں نے حکومت کو کوئی حساب کتاب دیا ہے بلکہ جو کچھ ہے وہ میرا ذاتی ہے۔
اخبارات میں نیتن یاھو کی کرپشن کہانیاں چھپتی رہیں مگر لیکوڈ پارٹی کے سرکردہ عہدیدار مکمل طورپر خاموش رہے۔ سنہ 2009ء میں زیپی لیونی نے نیتن یاھو کو شکست دی تھی اس کے بعد وہ ایک بار پھرسیاست میں منظرعام پرآئے۔
نیتن یاھو کے بعض رفقاء کا کہنا ہے کہ یاھو اپنے پاس بٹوہ نہیں رکھتے۔ ایک دفع اُنہیں ناشتے کی میز پر ناشتے کی بل پر مضطرب پایا گیا۔ انہوں نے اپنی جرابوں سے ایک سو ڈالر کا نوٹ نکالا اور ادا کیا۔ اس کے بعد صحافیوں میں مشہور ہوگیا کہ نیتن یاھو بٹوہ نہیں رکھتے بلکہ ان کی جرابیں ان کا بٹوہ ہیں۔ وہ کئی دفعہ کنیسٹ میں کافی کا بل ادا کرنے پر اس لیے معذرت کر دیتے کہ ان کی جیب اس کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔
موجودہ اسرائیلی صدر روف رفیلین نے ایک اور قصہ سنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2009ء کے پارلیمانی انتخابات کے دوران ہم ’محانیہ یہودا‘ بازار میں انتخابی مہم کے سلسلے میں گئے۔ یہ حلقہ لیکوڈ کے حامیوں کا سمجھا جاتا ہے۔ اس موقع پر نیتن یاھو نے مرچوں والا ایک نان خرید کیا مگر دکاندار کو اس کے پیسے ادا نہیں کیے۔ جب رویلین نے اپنی جیب سے روٹی کی قیمت دینا چاہی تو نیتن یاھو نے معذرت کی اور کہا کہ ان کی جیب میں پیسے نہیں۔ اس پر رویلین نے 28 شیکل کا نوٹ نکال کر نیتن یاھو کے ہاتھ میں دیا جسے انہوں نے دکاندار کے حوالے کردیا۔ دکاندار نے روتی کی رقم کاٹ کر بقیہ پیسے واپس کردیے۔ نیتن یاھو نے بقیہ پیسے رویلین کو دینے کے بجائے اپنی جیب میں ڈال لیے۔
ایسا ہی ایک واقعہ اسرائیل کے ایک لکژری ہوٹل ’ڈیوڈ کنگ‘ میں ناشتہ کے موقع پر پیش آیا۔ یہ واقعہ بھی رویلین نے اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کو سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک انتخابی مہم کے دوران مجھے اور رکن کنیسٹ بنی بیگن کو نیتن یاھو کی طرف سے فون آیا اور ہمیں ڈیوڈ کنگ ہوٹل میں ناشتے کی دعوت دی۔
جب ہم ناشتہ کرچکے اور اس کے پیسے دینے کا وقف آیا تو نیتن یاھو نے کہا کہ وہ جیب میں بٹوہ نہیں رکھتے۔ ان کے پاس پیسے نہیں اس لیے کھانے کا بل وہ خود ہی ادا کریں۔ رویلین کا کہنا ہے کہ چند روز کے بعد نیتن یاھو نے انہیں دوبارہ ایک لکژری ہوٹل میں ناشتے کی دعوت دی جس پر انہوں نے نیتن یاھو کو صاف صاف جواب دے دیا کہ میرے پاس مہنگے ہوٹلوں میں کھانے کے لیے فالتو پیسے نہیں۔
جہاں ایک طرف نیتن یاھو کےبخل اور کنجوسی کے قصے زبان زد عام ہیں تو ہیں ان کے دوسروں کی جیب سے مہنگی چیزوں کی خریداری کے واقعات بھی موجود ہیں۔ حال ہی میں پولیس نے نیتن یاھو کے خلاف فرد جرم عاید کرنے کی سفارش کی اور بتایا ہے کہ نتین یاھو نے سنہ 2009ء میں یاھو نے ارب پتی یہودی ارنوب میلچن سے اپنے لیے مہنگے برانڈ کے سیگریٹ اور سارہ نیتن کے لیے گران قیمت شیمپو تحفے میں لیے تھے۔ اس تحفے کی قیمت 2لاکھ 84 ہزار ڈالر یعنی دو کروڑ چوراسی لاکھ روپے بنتی ہے۔
تاہم نیتن یاھو اپنے اوپر عایدکردہ الزامات کی صحت سے انکاری ہیں۔ اس طرح نیتن یاھو کے اسرائیلی میڈیا میں بخل کے ساتھ ساتھ دوسروں سے قیمتی تحائف وصول کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔