اہل اسلام کے ہاں مسجد اقصیٰ کا مقام ومرتبہ حرمین کے برابر ہے۔مگر یہ مقدس مقام صرف مذہبی مرکز اور عظیم الشان عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ ’قدیم الاقصیٰ‘ مسجد کا وہ قدیم ترین حصہ ہے جسے القدس کے تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی مرکزکے طورپر جانا جاتا ہے۔
’الاقصیٰ القدیم‘ یعنی پرانی الاقصیٰ کی تعمیر کے بارے میں بہت سی روایات ہیں۔ زیادہ مستند یہ ہے کہ مسجد کایہ حصہ اموی خلافت کے دور میں تعمیر کیا گیا۔
مسجدا قصیٰ کے سیاحتی اور ثقافتی امور کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر یوسف النتشہ نے نے ’قدیم الاقصیٰ‘ کی ثقافتی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے پرانی الاقصیٰ جام مسجد کے وسط میں کچھ آگے کی طرف ہے۔ مسجد کے اس حصے تک رسائی کے لیے سیڑھیاں اتر کراندر جانا پڑتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر النتشہ نے کہا کہ پرانی الاقصیٰ مسجد اقصیٰ کے شمال سے جنوب کی طرف پھیلی ہوئی ہے۔ جامع مسجد قصیٰ کے وسط کی اس ڈیوڑھی کے نیچے واقع ہے۔ مسجد کے اس حصے میں جانے کے لیے جنوب کی طرف سے راستہ موجود ہے۔ مسجد کے پرانے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی قدیم الاقصیٰ دو درجے نیچے کی طرف ہے۔
مسجد کا یہ حصہ فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس کے دروازے کے اندر سے گذرنے والا راستہ مسجد اقصیٰ تک جاتا ہے۔ عربی میں اس کے مرکزی دروازے کو باب النبی اور مغرب میں ’ڈبل گیٹ‘ کہا جاتا ہے۔
’قدیم الاقصیٰ‘ کے بانی
ڈاکٹر یوسف النتشتہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے بعد انہی کی کھڑی کی گئی بنیادوں پر ناصر خسرو نے’الاقصیٰ قدیم‘ کی بنیاد رکھی۔
اس مقام کے فن تعمیر کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ اس کی تعمیر میں بھاری پتھروں کا استعمال کیاگیا ہے۔ عقل نہیں مانتی کہ جس دور میں بھاری وزن اٹھانے والی کرینیں تھیں اور نہ مشینری تھی اس کے باوجود یہ بھاری بھرکم پتھر اس مقام تک کیسے پہنچائے گئے۔ یہ تعمیر انسانی طاقت سے مافوق دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ایک دوسری روایت بھی موجود ہے کہ اسے سلیمان علیہ السلام کےدور میں جنات کی مدد سے تعمیر کیا۔ اس لیے صاف پتاچلتا ہے کہ اس جگہ کی تعمیر میں جنات کی مدد لی گئی ہوگی۔
تاہم ایک روایت کے مطابق قدیم الاقصیٰ کا دروازہ رومانوی دورمیں تعمیر کیا گیا۔ بعض لوگ اسے ھیروڈوس کے دور یعنی 37 قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا۔ یہ باب تیطس کےدور سنہ 70ء میں منہدم کردیا گیا۔ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے خصوصی توجہ کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا۔
مروان بن عبدالملک نے پرانے دور کے تعمیراتی مواد کو استعمال کیا تاہم اس بات کا خیال رکھا کہ پرانی تعمیرات سے اسلام کے عقیدہ توحید پر کوئی اثر نہ پڑے۔
چونکہ اموی دور میں بیت المقدس میں محلات تعمیر کیے گئے تھے۔ اس لیے ’الاقصیٰ القدیم‘ مسجد القبلی کے عقب میں واقع اموی محلات تک جانے کا ایک راستہ تھا۔ اسے الختنیہ دفتر لائبریری کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ سنہ 1998ء میں مسجد اقصیٰ کی تعمیراتی کمیٹی نے اس کی تعمیر نو کی۔