ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ بعض ممالک یک طرفہ اقدامات اور عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مخصوص مفادات کے لئے القدس کو قربان کرنا چاہتےہیں۔ ان کا اشارہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کی جانب تھا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ترک صدر نے ان خیالات کا اظہار ایک پیغام میں کیا۔ یہ پیغام ترکی کے وزیر برائے سپورٹس عثمان اشکن باک نے’القدس اسلامک یوتھ کا دارالحکومت برائے 2018‘ کی رام اللہ میں منعقدہ ایک تقریب میں پڑھ کر سنایا۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس صدیوں سے امن وآشتی اور امن بقائے بائے کی علامت رہا ہے مگر ایک فریق اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے القدس کو قربانی کا بکرا بنا رہا ہے۔
صدر ایردوآن نے اپنے پیغام میں کہا کہ القدس کے حوالے سے پورا عالم اسلام مشکل ترین دور سے گذر رہا ہے۔ بیت المقدس کے تاریخی تشخص کو مٹانے کے لیے دشمن قوتوں نے حملےتیز کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنے پر نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی برادری میں بھی غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالم اسلام کا حصہ ہونے کے ناطے ہم نے ہرسطح پر القدس کے دفاع کے لیے کوششیں کی ہیں۔ امریکی صدر اعلان القدس کے بعد 13دسمبر 2017ء کو اسلامی تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس میں عالم اسلام کی سیاسی قیادت نے واضح فیصلہ دیا ہے کہ مسلمان امریکی صدر کے فیصلے کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس کو ایک بار پھر مسترد کردیا اور کہا کہ فلسطینی قوم القدس سے اپنا تعلق کبھی ختم نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ القدس کے بارے میں فیصلہ کرنا فلسطینیوں کا حق ہے۔ امریکا کو بیت المقدس کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنے کا کوئی حق یا اختیار نہیں۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد امریکا غیر جانب دار ثالث کی حیثیت کھو چکا ہے۔
خیال رہے کہ القدس کو عالم اسلام کےیوتھ کا دارالحکومت برائے 2018ء قرار دیے جانے کے حوالے سے تقریبات جاری ہیں۔ رام اللہ میں اس حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں اسلامی تعاون تنظیم کے 20 رکن ملکوں کے وزراء اور 30 ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔