اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہزاروں فلسطینیوں میں بعض ایسے بھی ہیں جہیں ایک سے زاید بارعمرقید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔انہی میں ایک اسیر عمار الزبن ہیں جنہیں صہیونی عدالت نے فلسطینی تحریک آزادی کے لیے سرگرم رہنے کے الزام میں 27 بار تا حیات عمرقید کی سزا سنائی گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ستائیس بار کی تا حیات عمرقید کی سزا بھی اسے رہائی کی امید سے محروم نہیں کرسکی۔ طویل ترین اور بہ ظاہر نہ ختم ہونے والی اس سزا کے باوجود الزبن پرامید ہیں کہ وہ جلد دشمن کی قید سے آزادی حاصل کرلیں گے۔
اسیر عمارالزبن سنہ 1976ء کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہرنابلس کے حواری کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ انہیں ایک شہید کا بیٹا اور دوسرے کا بھائی ہونے کا ابدی اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کے خاندان نے فلسطینی تحریک آزادی کے لیے گراں بہا خدمات انجام د ہیں۔ فلسطینی قوم اور ملک سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھرہ ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے خاندان میں کئی افراد نے فلسطینی قوم کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔
عمار الزبن بچپن ہی سے مساجد میں نمازوں کی ادائی کے پابند تھے۔ ان کی زندگی کا بیشتر عرصہ مزاحمت اور جہاد کے عملی معانی سے بھرپور رہا ہے۔ مگر ان کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب سنہ 1993ء میں ان کے ایک بھائی کو اسرائیلی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید کردیا۔
صہیونی حکام نے عمار کو’خاموش قاتل یا ‘خاموش مجاھد‘ قرار دیا۔ اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور صحبت اختیار کرنے والے بھی ان کی عملی مزاحمتی زندگی اور تجربات سے مستفید ہوتے تھے۔ اس کے شہید ماموں میں مہند الطاھر، ایمن حلاوہ ، محمود ابو الھنود اور کئی دوسرے شامل ہیں۔
’اسیران کے لیے شہادت‘
صہیونی ریاست کئی سال تک عمار الزین کے تعاقب میں رہی۔ انہوں نے ’شہداء برائے اسیران‘ کے عنوان سے ایک مزاحمتی سیل قائم کیا اور سنہ 1997ء میں اس سیل کے سربراہ کی حیثیت سے ایک فدائی حملہ کرکے 27 صہیونیوں کو واصل جنہم کرتے ہوئے دسیوں کو زخمی کردیا۔
اس کارروائی کے کئی ماہ بعد اسرائیلی فوج نے عمار الزبن کو حراست میں لے لیا۔ اس کی گرفتاری کی خبر اچانک سامنے آئی تھی۔ صہیونی فوج نے کہا کہ اس نوعیت کی کارروائی ’خاموش‘ مجاھد ہی کرسکتا ہے۔ اس کارروائی میں ان کے ساتھ یوسف السرکجی اور ابراہیم بنی عودہ بھی تھے جنہوں نے جام شہادت نوش کیا گیا۔
جن دنوں عمار الزبن نے کارروائی کی ان دنوں وہ بالکل خاموش تھے۔ وہ خاموشی سے ایک سے دوسرے شہر میں داخل ہوتے رہے۔ اس دوران انہوں نے ’شہدا ء برائے اسیران سیل‘ تشکیل دیا۔ اسی عرصے میں انہوں نے بغیر کسی کوبتائے کا بھی سفر کیا۔ صہیونی ریاست کے انٹیلی جنس اداروں کی عقابی نظروں سے بچ کر اردن کا سفر ان کی کامیاب حکمت عمل کی زندہ مثال تھی۔
عمر قید
سنہ 1993ء کے بعد عمار الزبن کو ایک نہیں بلکہ تین بار حراست میں لیا۔ پہلی بار انہیں 1993ء میں حراست میں لیا گیا اور اڑھائی سال تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ دوسری گرفتاری ان کے بھائی بشار کی شہادت کے بعد ہوئی جب انہوں نے اپنے بھائی کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ دوسری بار انہیں چھ ماہ تک انتظامی قید کی پالیسی کے تحت پابند سلاسل رکھا گیا۔
عمار الزبن کی تیسری گرفتاری اس وقت ہوئی جب انہوں نے شہداء برائے اسیران سیل تشکیل دینے کے ساتھ القسام بریگیڈ کے ساتھ وابستگی اختیار کی۔ ایک فدائی کارروائی کے دوران انہوں نے ستائیس صہیونیوں کوجہنم واصل کیا۔ سنہ 1999ء میں انہیں حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف اسرائیل کی ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا اور عدالت نے انہیں 27 بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
سنگین سزا سنائے جانے کےبعد اسرائیلی فوج نے عمار الزبن کے اہل خانہ کو بھی اجتماعی سزا دینا شروع کردی۔ اس کی ایک شکل الزبن سے ملاقات پر پابندتھی۔ الزبن کے اہل خانہ کو مسلسل مسلسل پانچ سال تک پابندی عاید کیے رکھی۔
عمار الزین کی ماں ایک صابر مجاھدہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک شہید شوہر کی بیوہ، ایک شہیدہ کی ماں اور ایک اسیرکی ماں ہیں۔
سلاخوں کے پیچھے امید کی کرن
سنہ 2012ء میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے عمار الزبن کا نطفہ مصنوعی طریقے سے منتقل کیا جس کے نتیجے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ آج اس کی عمر تین سال ہے جب کہ صلاح الدین کے بعد یہ دوسرا بچہ جو فلسطین میں اس طریقے پیدا کرنے کا تجربہ کیا گیا۔
مصنوعی طریقے سے عمار الزین کے دو بچے ہیں۔ پہلے بچے کا نام مہند اور دوسرے کا صلاح الدین ہے۔
جیل میں رہتے ہوئے بچوں کی پیدائش میں کامیابی کے ساتھ ساتھ عمار الزبن نے تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے جیل ہی میں گریجوایشن کاڈپلومہ حاصل کیا مگر جیل میں پڑھائی کے حالات ساز گار نہ ہونے کے باعث انہوں نے تعلیم کا حصول چھوڑ دیا گیا۔
تاہم انہوں نے اسرائیلی زندانوں میں تین ادبی شاہکار تخلیق کیے۔ ان کا پہلا ناول ’زھر البرتقال‘ مالٹے کا پھول، اس کے بعد ’خلف العدو‘ اس میں انہوں نے اسرائیلی فوجی کے اغواء کی کارروائ کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔ ان کا تیسرا ناول ’الزمرۃ’ کے نام سے شائع کیا گیا۔