اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے قائم کردہ ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی’اونروا‘ گذشتہ چند برسوں سے فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کی ادائی میں کسی حد تک غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ’اونروا‘ پر امریکا اور بعض دوسرےملکوں کی طرف سے دباؤ بھی ہے اور ایجنسی کی مالی امداد کی بندش یا کمی کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں،مگر دوسری طرف اونروا کی فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے میں سستی، غفلت یا بعض پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں غزہ کی پٹی کے فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات دوسرے علاقوں میں رہنے والے فلسطینی پناہ گزینوں سے کافی حد تک مختلف ہیں۔
اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ’اونروا‘ ایجنسی‘ غزہ کے قریبا ایک ملین فلسطینی پناہ گزینوں کا معاشی قتل کرنے کا جا رہی ہے۔
غزہ کی پٹی میں قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں قریبا 9 لاکھ 92 ہزار فلسطینی رہ رہے ہیں۔ ان کی گذر اوقات کا پہلا اور آخری ذریعہ ’اونروا‘ ہے۔ مگر اس ادارے کی طرف سے پناہ گزینوں کو امداد دینے کے نام پر جس طرح کی منظم تذلیل کا سامنا ہے اس اس امر کا اشارہ ہے کہ یہ ادارہ کم سےکم غزہ کی پٹی کے فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد سے حیلوں اور بہانوں کے ذریعے گلو خلاصی کررہا ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے شعبہ امور پناہ گزین نے غزہ میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ میں ثبوت کے طور پر ایک فلسطینی پناہ گزین ابو احمد کو درپیش مشکلات کا ذکر ہے۔ ابو احمد کو ’اونروا‘ کی طرف سے ایک کارڈ جاری کیا گیا ہے۔ اس کارڈ میں اس کا ’پناہ گزین‘ اسٹیٹس درج ہے۔
ابو احمد راشن کے حصول کے لیے کئی کئی میل لمبی قطاروں میں لگتا ہے مگر اس کی باری نہیں آتی۔
ایک روز وہ اپنے گھر سے راشن کے حصول کے لیے ’اونروا‘ کے راشن مرکز پہنچا تو وہاں پرپہلے سے آئے پناہ گزینوں کی ایک طویل قطار تھی۔ جس طرح فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات لا متناہی ہیں۔ اونروا کےامدادی مرکز سے امداد لینے والوں کی قطاریں بھی اتنی ہی لمبی ہیں۔
پناہ گزینوں سے توہین آمیز سلوک
ابو احمد کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے قائم کردہ ’ریلیف مرکز‘ سے ایک ’کوپن‘ یا ٹوکن لینا پڑتا ہے۔ اس ٹوکن کے حصول کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے بعض اوقات پورا پورا دن گذر جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ ٹوکن کی آڑ میں توہین سلوکیا جاتا ہے۔
’اونروا‘ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ریلیف کا سلسلہ سنہ 1948ء کے بعد سے جاری ہے۔ یہ ادارہ ان فلسطینیوں کی امداد اور بحالی کا ذمہ دار ہے جنہیں فلسطین میں قیام اسرائیل کے وقت ان کے گھروں سے نکال دیا گیاتھا۔
ان فلسطینیوں کی تعداد 60 لاکھ سے زاید ہے جو اندرون فلسطین کے ساتھ ساتھ اردن، شام اور لبنان میں بھی پناہ گزین کیمپوں میں آباد ہیں۔
فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے سنہ 2007ء میں ناکہ بندی مسلط کی۔ اس ناکہ بندی کا براہ راست اثر فلسطینی پناہ گزینوں پر بھی پڑا۔
اونروا کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کو دی جانےوالی خوراک اور رواشن میں آٹا، چینی، چاول،خوردنی تیل، گوشت اور خشک دودھ دیا جاتا ہے۔
کوپن برائے فروخت
ابو احمد راشن مرکز سے سامان لے کر باہر نکلا تو اسے سامان ٹیکسی پر لاد کر گھر لانے کے بارے میں سوچا۔ قریب ہی ایک ٹیکسی کھڑی تھی مگر پہلے اس نے ٹیکسی کے گھر تک کرائے کا حساب کیا اور جیپ میں پیسے دیکھے تو اس کے پاس گھر تک پہنچنے کے لیے ٹیکسی کا کرایہ نہیں تھا۔
اس نے قریب ہی ایک دکان پر جا کر کچھ چاول اور خشک دودھ فروخت کے لیے پیش کیے تاکہ وہ گھر تک پہنچنے کے لیے ٹیکسی کے کرائے کا بندو بست کرسکے۔
ایک دوسرے فلسطینی ابو عیسیٰ نے بتایا کہ وہ بے تابی کے ساتھ راشن ٹوکن کا انتظار کررہا تھا کیونکہ اس کےگھر سے آتھا اور دیگر کھانے کی اشیاء ڈیڑھ ماہ پہلے ختم ہوگئی تھیں۔ اس کے بچوں کے لیے کھانا اکثر پڑوس والے بھیج دیتے تھے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کو جاری کردہ ’زرد کوپن‘ کا مطلب یہ ہے کہ کوپن ک حامل کو دوگنا خوراک دی جائے گی مگر دوگنا امداد بھی ناکافی ہے۔ ابو عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اس کے گھر میں کھانے والے افراد کی تعداد دس ہے۔ بعض اوقات خوراک کی شکل میں والی چیزیں دکانداروں کو فروخت کرنا پڑتی ہیں۔
برسوں سے وطن واپسی کا انتظار
فلسطینی عمر رسیدہ پناہ گزین ابو ھادی نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ وہ مسلسل 70 سال سے قطاروں میں کھڑے ہو کر ذلت آمیز انداز میں امداد حاصل کرتے ہیں۔ آج سے 70 برس پیشتر جب اونروا ایجنسی قائم کی گئی تو اس وقت ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ بہت جلد انہیں ان کے گھروں کو واپس بھیج دیا گیا جائے گا مگر وہ آج تک اس وعدے کے ایفاء ہونے کے منتطر ہیں۔
ابوھادی کو’اونروا‘ کی طرف سے ملنے والے سامان میں سے کچھ چیزیں دیگرضروریات کے لیے فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی صرف کھانے پینے کا نام نہیں۔ کوپن میں ہمیں ہماری ضرورت کی ہرچیز نہیں ملتی۔ اہمیں سبزیوں اور پھلوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر اونروا ہمیں یہ چیزں تو فراہم نہیں کرتا۔ پانی، بجلی کے بلوں کی ادائی اور بچوں کے اسکولوں کی فیسز بھی ہمیں ادا کرنا ہوتے ہیں۔