چهارشنبه 30/آوریل/2025

’شیرون نے یاسرعرفات کا ہوائی جہاز مار گرانےکا حکم دیا تھا‘

جمعرات 25-جنوری-2018

اسرائیل کے ایک سینیر صحافی اور تجزیہ نگار ’رونین برگمان‘ نے اپنی نئی کتاب میں کئی لرزہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون نے سنہ 1982ء میں تنظیم آزادی فلسطین کے سربراہ یاسرعرفات کا ہوائی جہاز مار گرانے کا حکم دیا تھا۔ شیرون اس وقت اسرائیل کے وزیر دفاع تھے۔ انہوں نے یاسرعرفات کا طیارہ ’ایف 15‘ جنگی  جہاز سے مار گرانے کا منصوبہ اس وقت کےآرمی چیف رفائیل ایٹن کے ساتھ مل کر بنایا تھا مگر اس کے براہ راست احکامات جاری کرنے کی ذمہ داری اس وقت کے فضائیہ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ ہیفری  کو سونپی گئی تھی۔

’چڑھو اور فورا مار ڈالو‘ کے عنوان سے شائع کی گئی کتاب میں یاسرعرفات کے طیارے ہوفضا میں تباہ کرنے اسرائیلی منصوبے کی پس پردہ کہانی کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔

سنہ 1982ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع ارئیل شیرون نے یاسر عرفات کے سول جہاز کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا انہوں نے فضائیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ بیرون ملک موجود یاسرعرفات پرنظر رکھیں۔ یاسرعرفات کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی ذمہ داری’موساد‘ کے ایجنٹوں کو سونپی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ جس ہوائی جہاز میں یاسرعرفات سوارہوں اسے مار گرایا جائے تاکہ عرفات  سے گلو خلاصی اختیار کی جاسکے۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ فضائیہ کے سربراہ ارئیل شیرون کے سخت احکامات کے باجود کسی سول ہوائی جہاز کو گرانے کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ جن جنگی پائلٹوں کو یاسرعرفات کے طیارے کو مار گرانے کا ٹاسک دیا گیا تھا فضائیہ کے سربراہ نے انہیں کہا تھا کہ اس وقت تک جہاز پر فائرنگ نہ کریں جب تک وہ خود انہیں فون نہ کریں۔ کسی اور طرف سے غلطی سے آنے والے ٹیلیفون پر بھی عمل نہ کیا جائے۔

اس منصوبے کی تیاری کے بعد بیرون ملک ’موساد‘ کے دو ایجنٹوں نے اطلاع دی کہ یاسرعرفات یونان کے شہر ایتھنز سے قاہرہ روانہ ہونے والے ہیں۔ تاہم اسرائیلی فوج اور فضائیہ کو شبہ تھا کہ آیا واقعی طیارے میں سوار ہونے والوں میں یاسرعرفات بھی شامل ہیں۔

امریکی اخبار’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی اس اسٹوری کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ بالکل آخری وقت میں مشکوک ہونے کی بناء پر ایتھنز سے قاہرہ آنے والی پرواز کو نشانہ بنانے کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود ارئیل شیرون اور آرمی چیف اس معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کرنے کے لیے فضائیہ کے سربراہ پر دباؤ ڈال رہے تھے۔

جنرل عیفری نے ایف پندرہ طیارے کے پائلٹوں کو بتایا کہ وہ ایتھنز سے قاہرہ آنے والی اس پرواز کی نگرانی کریں مگر جب تک انہیں میری طرف سے احکامات نہ ملیں وہ فائر نہ کھولیں۔

 23 اکتوبر دن 2 بج کر 5 منٹ پر موساد کے ایجنٹوں نے تل ابیب کوایک مراسلہ بھیجا جس میں کہا گیا کہ ایھتنز کے ہوائی اڈے سے قاہرہ آنے والی ایک پرواز میں یاسرعرفات بھی آرہے ہیں۔

فضائیہ کے سربراہ نے اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس سےبھی اس خبر کی تصدیق کرائی مگر فضائیہ کے سربراہ اس وقت بھی تذبذب میں تھے۔

موساد کے ایجنٹوں نے دوسرا مراسلہ بھیجا کہ یاسرعرفات والی پرواز مقامی وقت کے مطابق 4:30 پر ٹیک آف کرے گی۔ جنرل عیفری نے بھی دو جنگی طیاروں کو اڑان بھرنے کا حکم دیا تاہم انہیں ایک بار پھر تاکید کہ وہ فائر کرنے کے لیے ان کی ہدایات کا انتظار کریں، کسی اور کی طرف سے کوئی رابطہ کیا جائے تو اس پرعمل درآمد نہ کریں۔

آرمی چیف نے جنرل عیفری سےپوچھا کی پلان کہاں تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس حتمی تصدیق نہیں کہ آیا اس ہوائی جہاز میں یاسرعرفات بھی سوار ہیں۔

اس دوران ’ایف 15‘ طیارے ایتھنز کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔ اس دوران اچانک یہ اطلاعات آئیں کہ مذکورہ ہوائی جہاز میں سوار ہونے والے یاسرعرفات نہیں بلکہ ان کے بھائی فتحی عرفات ہیں۔

جنگی طیاروں کے پائلٹ آدھا گھنٹا فضاء میں رہے مگر فضائیہ کےسربراہ نے انہیں طیارے کو مار گرانے کا حکم نہیں دیا۔

اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس اور موساد کے ایجنٹوں نے آدھ گھنٹے کے بعد بتایا کہ طیارے پر یاسرعرفات کے بھائی فتحی عرفات سوار  ہیں۔ فتحی عرفات بچوں کے ڈاکٹر تھے اور ان کا پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے لیے قاہرہ آنا جانا لگا رہتا تھا۔

اسرائیلی مصنف کا کہنا ہے کہ موساد اور ملٹری انٹیلی جنس کی معلومات ناقص تھیں۔ طیاے میں یاسرعرفات ہی سوار تھے۔ وہ صبرا شاتیلا پناہ گزین کیمپ میں شیرون کی زیرنگرانی ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں زخمی ہونے والے  30 بچوں کو لے کر علاج کے لیے قاہرہ روانہ ہوئے تھے۔ جب وہ قاہرہ پہنچے تو صہیونیوں کو ان کا طیارہ نہ مار گرانے پر بہت دکھ ہوا۔

مختصر لنک:

کاپی