فلسطینی اتھارٹی کے ایک مقرب ذریعے نے چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے اور بتایا ہے کہ صدر محمود عباس کو خدشہ ہے کہ سعودی عرب امریکا کے ساتھ مل کر صدر ٹرمپ کا نام نہاد امن منصوبہ فلسطینیوں پر مسلط کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے رام اللہ اتھارٹی کے ایک ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر عباس کو امریکی صدر کے امن منصوبے کے بارے میں بتایا ہے۔ اس منصوبے کی تفصیلات سننے کے بعد صدر عباس بھی پریشان ہوگئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس نے تحریک فتح کے رہ نماؤں سے بات چیت کے دوران کہا کہ سعودی عرب اور امریکا مل کر فلسطینیوں پر نیا منصوبہ مسلط کرسکتے ہیں۔ ذرایع کے اس تازہ انکشاف کے بعد تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن احمد مجدلانی کے ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس بیان کو تقویت ملتی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ شہزادہ محمد سلمان نے محمود عباس کو امریکی صدر کے اس منصوبے کے بارے میں بتایا ہے جسے امریکا ’صدی کی ڈیل‘ قرار دیتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ذرائع نے کہا کہ محمود عباس نے سعودی ولی عہد کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ابھی کم عمر ، جذباتی اور سیاسی طورپر ناتجربہ کار لڑکا ہے۔ صدر عباس کا مزید کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد کے فیصلوں پر بہت زیادہ اور گہرا اثر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاید کا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے تحریک فتح کے باغی اور منحرف لیڈر محمد دحلان کی واپسی کے لیے بھی دباؤ ڈالا مگر محمود عباس نے یہ دباؤ اس لیے مسترد کردیا کیونکہ اس تجویز کے پیچھے متحدہ عرب امارات کا ہاتھ ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت شہزادہ محمد بن سلمان کی امریکی صدر ٹرمپ کے’صدی کی ڈیل‘ نامی امن منصوبے میں دلچسپی لینے پر مشوش ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد امریکی اقدامات کو عمل جامہ پہنانے میں ان کے معاون بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کو شہزادہ محمد بن سلمان کی عجلت میں کی جانے والی کارروائیوں اور اقدامات پر اعتبار نہیں۔
صدر عباس کے مقربین کا خیال ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان ہرصورت میں امریکی صدر کے امن منصوبے کو آگے بڑھانے میں مدد کریں گے۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کو اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں کیونکہ صدر عباس نے شہزادہ محمد بن سلمان کی امریکی اقدامات کے حوالے سے تجاویز کو قبول نہیں کیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران بعض علاقائی قوتوں کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی پر امریکی امن فارمولے کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ صدر عباس نے بھی فلسطینی مرکزی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں اس جانب اشارہ کیا اور کہا کہ بعض حلقے انہیں امریکیوں کی طرف رجوع کرنے پرمجبور کررہے ہیں مگر ہم اپنے معاملات میں کسی کی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی خطے کے لیے نئی حکمت عملی کو مسترد کرتی ہے تو فلسطین میں محمود عباس کے متبادل کسی اور طالع آزما کو لانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مختلف عرب اخبارات بھی اس کے امکانات پر رپورٹس جاری کرچکے ہیں۔
خبر رساں ادارے’اناطولیہ‘ نے صدر عباس کے مشیر برائے عالمی امور نبیل شعث کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے امن فارمولے کے کچھ نکات لیک ہوئے ہیں جن میں محمود عباس کو ان کے عہدے سے ہٹانا بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا فلسطینی اتھارٹی پر صدر ٹرمپ کے فارمولے کو قبول کرنے لیے سخت دباؤ ڈال رہا ہے۔