جمعه 15/نوامبر/2024

‘غرب اردن کا اسرائیل سے الحاق‘ نئے سنگین بحرانوں کا موجب!

جمعرات 11-جنوری-2018

حال ہی میں اسرائیل کی حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘  نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے کو اسرائیل سے الحاق کی حمایت میں ایک نیا اعلامیہ جاری کیا۔ اس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیلی حکومت غرب اردن کے علاقوں میں قائم کی گئی یہودی کالونیوں میں اسرائیل کا سرکاری قانون نافذ کیا جائے۔ یوں اس ہتھکنڈے کا مقصد غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔

اسرائیل کی قومی سلامتی انسٹیٹیوٹ ’INSS‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں غرب اردن کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کی صہیونی سازشوں پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے اس کے بعد سے صہیونی حکومت نے اور اسرائیل کے انتہا پسند حلقوں نے غرب اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کے بعد اسرائیل میں سیاسی، سفارتی اور سیکیورٹی کی سطح پر نئے محاذ کھل جائیں گے۔

نظریاتی اسباب و محرکات

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غرب اردن کی تمام اراضی کو اسرائیل میں ضم کرنے کا مطالبہ سب سے زیادہ ان عناصر کی جانب سے کیا گیا جن کے غرب اردن میں یہودی کالونیوں میں سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔ اسرائیلی کنیسٹ کے وہ ارکان جنہوں نے غرب اردن کی یہودی کالونیوں سے ووٹ لیے ہیں ان کی طرف سے کنیسٹ سے بار بار یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کریں کیونکہ وہ الیکشن مہم کے دوران اپنے ووٹروں سے اس کا عہد کرچکے ہیں۔

سابق انٹیلی جنس چیف عاموس یدلین کی سربراہی میں قائم قومی سلامتی انسٹییٹوٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا مطالبہ نظریات اسباب و محرکات کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کے حقوق کے مطالبے کی بنیاد پر غرب اردن کا اسرائیل سے الحاق کیا جا رہا ہے۔

جہاں تک عالمی برادری کے موقف کا تعلق ہے تو عالمی سطح غرب اردن، مشرقی بیت المقد اور سنہ انیس سو ستاسٹھ کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں ہر اسرائیل کو تصرف کا کوئی حق نہیں۔ عالمی قانون کے تحت اسرائیل ان متنازع اور مقبوضہ علاقوں میں سے کسی کو بھی  صہیونی ریاست میں ضم نہیں کرسکتا۔

اسرائیل کا اپنا سرکاری قانون بھی غرب اردن پر لاگو نہیں ہوتا۔ غرب پر اسرائیل آج تک سنہ 1967ء سےپہلے والے قانون پر ہی عمل پیرا ہے۔ ان علاقوں پر اسرائیل کی طرف سے اس جنگ سے پہلے والے عسکری اور سیاسی قوانین نافذ ہیں۔

اگر اسرائیل غرب اردن کے سیکٹر C پر اپنی رٹ قائم کرنے یا اپنا قانون نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو صہیونی ریاست کو وہاں بسنے والے 3 لاکھ فلسطینیوں کو تمام شہری حقوق دینے کا اعلان کرنا ہوگا۔ انہیں نقل وحرکت کی آزادی، نیشنل انشورینس کا حق، اسرائیل کی شہریت خاص طور پر شامل ہیں۔

انسانی حقوق کی پامالی

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غرب اردن کے سیکٹر ’C‘ پر اسرائیل کا آئینی کنٹرول پورے غرب اردن کے علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں پر اثرات مرتب کرے گا۔ سیکٹر C  میں رہنے والے فلسطینیوں کی املاک، مکانات اور زمینیں سیکٹر A اور سیکٹر B  میں بھی موجود ہیں۔ سیکٹر C غرب اردن کے کل علاقوں کے 61 فی صد علاقے پر قائم ہے۔ اگر اسرائیل غرب اردن کے علاقوں کو اپنی عمل داری کا اعلان کرتا ہے تو اس کے  نتیجے میں غرب اردن میں بسنے والے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق پامال ہوسکتے ہیں۔

سیکیورٹی کا بحران

اسرائیلی تھینک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اقدام سے اسرائیل کے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہوں گے۔ فلسطینی اتھارٹی رد عمل میں اسرائیل کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کااعلان کرسکتی ہے۔ اس طرح اسرائیل کو غرب اردن میں ایک نیا سیکیورٹی بحران پیش آسکتا ہے۔

اس کےعلاوہ غرب اردن کے بارے میں اسرائیل کا کوئی بھی ایسا اقدام فریقین میں اس حوالے سے اب تک طے پائے تمام سمجھوتوں کے خلاف ہوگا اور فلسطین، اسرائیل تنازع کے پرامن حل کی کوششیں مزید پیچیدگیوں کا شکار ہوجائیں گی۔

غرب اردن میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگا اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کار بھی عدم تحفظ کا شکار ہوجائیں گے۔

اسی طرح عالمی سطح پر بھی غرب اردن پرقبضے کے اسرائیلی اقدام کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ عالمی برادری اسرائیل کے ایسے کسی بھی اقدام کو دو ریاستی حل کو تباہ کرنے کی کوششوں سے تعبیرکرے گی۔

غرب اردن پر قبضے یا اس کے اسرائیل سے الحاق کے نتیجے میں صہیونی ریاست کے عالمی برادری کے ساتھ بھی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ کئی عالمی تنظیموں میں اسرائیل کی رکنیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی