فلسطینی وزارت تعلیم نے امریکا کی جانب سے فلسطینی اسکولوں میں پڑھائے جانے والے سرکاری نصاب تعلیم کو مشکوک قرار دینے کی شدید مذمت کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی وزارت تعلیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی طرف سے فلسطینی درسی نساب کو مشکوک قرار دینا اور صہیونی ریاست کے خلاف نفرت پر مشتمل مواد شامل ہونے کا دعویٰ بے بنیاد اور قابل مذمت ہے۔ فلسطین کا سرکاری نصاب فلسطینی قوم کے دیرینہ اصولوں کے مطابق ہے
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت اسرائیل کی خوش نودی کے لیے فلسطینی نصاب تعلیم کو مشکوک قراردے کر فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ ڈالنے اور بلیک میل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی نصاب تعلیم کو مشکوک قرار دینا فلسطینی قوم کے خلاف اٹھائے گئے امریکا کے حالیہ اقدامات کی ایک نئی کڑی ہے۔ فلسطینی قوم امریکا کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فلسطینی نصاب تعلیم کی جانچ پرکھ کے امریکی اعلان کو مسترد کرتی ہے۔
خیال رہے کہ امریکی اسٹیٹ کنٹرولر لوئیس ڈوڈارون نے فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام اسکولوں کے لیے تیار کردہ درسی نصاب پر غور کرنے اور اس میں تبدیلی پر اثراندازہونے کی کوششیں شروع کی ہیں۔
عبرانی میڈیا کے مطابق مسٹر لوئس ڈوڈارون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب تعلیم کی جانچ پرکھ کریں گے کیونکہ اس نصاب میں مبینہ طور پرصہیونی ریاست کے خلاف نفرت پر اکسانے والا مواد موجود ہے۔
عبرانی ویب سائیٹ ’ان آر جی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے اسکولوں بالخصوص غرب اردن اور غزہ کی پٹٰی میں بچوں کو پڑھائے جانے والے نصاب کی چھان بین کریں گے اور اس نصاب کو یہودیوں کی مخالفت اور دہشت گردی پراکسانے والے مواد سے پاک کریں گے۔
ویب سائیٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ کنٹرولر کی طرف سے مشرق وسطیٰ اورایشیا میں انسداد دہشت گردی کی کمیٹی کے رکن جیمز ریش کے سوال کے جواب میں دیا۔
امریکی سینٹر ریش کا کہنا تھا کہ امریکا فلسطینیوں کو براہ راست اور بالواسطہ طور پر کروڑوں ڈالر کی امداد دیتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے امریکی اسٹیٹ کنٹرولر کی طرف سے جاری کردہ رپورٹس اور انتباہی بیانات کے باوجود نصاب تعلیم میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی اور نصاب سے متعلق شکایات کا ازالہ نہیں کیا ہے۔