فرانسیسی ماہرین صحت نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چینی کے صحت پرمرتب ہونے والے منفی اثرات کے باوجود دنیا بھر میں لوگ اس کا بے دریغ استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ میٹھا زہر ہے جو انسا کی صحت کے لیے تباہ کن خطرہ ہے۔
فرانسیسی اخبار ’لی مونڈ‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1850ء کے بعد فرانس میں فی کس افراد نے سالانہ چینی کے استعمال میں کئی گنا اضافہ کیا۔ 1850ء میں فرانس میں فی کس سالانہ 5 کلو گرام چینی استعمال کرتا تھا جب کہ اس وقت سالانہ 35 کلو چینی استعمال کی جاتی ہے۔ یوں چینی کل جسمانی خوراک کا 20 فی صد بن چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق امریکا میں چینی کا استعمال تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ امریکا میں سالانہ فی کس 60 کول گرام چینی استعمال کی جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرانشیسکو پرانکا کہنا ہے کہ چینی کا یومیہ استعمال 10 فی صد کم ہونے سے موٹاپے اور دانوں کے مسائل کم ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی میں غیرضروری مقدار میں حرارے موجود ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر پرانکا کا کہنا ہے کہ غذائی اعتبار سے چینی بالکل بھی ضروری نہیں۔
فرانسیسی سائنسدان ڈیڈیی راوول کا کہنا ہے کہ چینی کا استعمال وباء کی حد تک پھیل رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جتنا جتنا چینی کا استعمال زیادہ ہوتا جائے گا، موٹاپا، دانتوں کے امراض اور کئی دوسرے امراض بڑھتے چلے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق 2012ء میں میٹھے کے استعمال سے موٹاپے کی شرح 47 فی صد اور 2030ء یہ تناسب 67 فی صد تک جاسکتا۔ اس وقت دنیا بھر میں 6 کروڑ 90 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں اور سنہ 2045ء میں ہر دس میں سے ایک شخص اس بیماری کا شکار ہوگا۔