شنبه 16/نوامبر/2024

القدس کے بارے میں ٹرمپ کےفیصلے کی کوئی حیثیت نہیں:محمود عباس

جمعرات 7-دسمبر-2017

فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے واشنگٹن کے سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے اعلان کو قیام امن کی کوششوں پر کاری ضرب قرار دیتے ہوئے اسے سختی سے مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی اقدام سے فلسطینی کی تحریک آزادی میں مزید شدت آئے گی۔ انہوں نے امریکی اقدام کے بعد فلسطینیوں سے قومی اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صدر محمود عباس نے ٹرمپ کے فیصلے کے رد عمل میں کہا کہ  القدس عظیم اور قدیم فلسطینی ریاست کا درالحکومت ہے جس کی شناخت ایسے فیصلوں سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

ابو مازن کا مزید کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا سفارتخانے کی منتقلی سے متعلق اعلان دراصل امریکا کا امن عمل کی نگرانی سے دست کشی کا اعلان ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی قیادت دوست ملکوں کے مشورے سے اس سلسلے میں فیصلے کرنے میں مصروف ہے اور آنے والے دنوں میں فلسطینیوں کی جانب سے معاملے کی پیروی کے لئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جائیں گے۔

بدھ کے روز وائٹ ہاوس میں خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کو امریکا کا درالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور وزارت خارجہ کو ہدایت کی وہ واشنگٹن کا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کی تیاری کریں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے تاریخ کا ایک ایسا غیر منصفانہ فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن کی کوششیں تباہ ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اقدام پر خاموش نہیں رہیں گے بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جوابی اقدامات پر غور کریں گے۔

صدر عباس نے کہا کہ وہ جلد ہی مرکزی کونسل کا اجلاس بلا کر امریکی صدر کے القدس بارے فیصلے کے رد عمل میں اپنے جوابی اقدامات کا اعلان کریں گے۔

ابو مازن نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم زعاء کے متفقہ مطالبے کو نظرانداز کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صرف صہیونی ریاست کے مفادات پر کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کے پاس بھی یہ باہمی اتحاد کا تاریخی موقع ہے۔

مختصر لنک:

کاپی