جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطین کی بندربانٹ کے چونکا دینے والے سعودی منصوبے کا انکشاف!

منگل 5-دسمبر-2017

عالمی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ ماہ فلسطینی صدرمحمود عباس اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے حل کا ایک نیا فارمولہ پیش کیا گیا تھا۔ یہ فارمولہ سعودی عرب کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جس میں بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کے بجائے نواحی علاقے ابو دیس کا اس کا دارالخلافہ قرار دینے کی تجویز دی گئی تھی۔

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق ذرائع ابلاغ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے لیے ’صدی کی ڈیل‘ کے منصوبے میں مجوزہ فلسطینی ریاست کا نیا نقشہ شامل ہے۔

دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کےترجمان نبیل ابو ردینہ نے خبر رساں ادارے’معا‘ سے بات کرتے ہوئے ابو دیس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کی تجویز کی تردید کی ہے۔ البتہ فلسطینی اتھارٹی نے باضابطہ طور پر اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

امریکی اخبار کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر محمود عباس کے سامنے تجویز پیش کی کہ وہ مشرقی بیت المقدس کے علاقےابو دیس کو فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر قبول کریں اور مقبوضہ بیت المقدس کا مطالبہ ترک کردیں۔

اس نئے منصوبے میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کے بعض علاقوں کو فلسطینی ریاست میں شامل کیا جائے گا۔ غرب اردن کے بہت سے علاقے اسرائیل کا حصہ قرار دیے جائیں گے، جب کہ فلسطینیوں کو بھی غرب اردن کے علاقوں میں مکمل اختیارات کے بجائے محدود اختیارات حاصل ہوں گے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا کوئی مطالبہ قبول نہیں کیا جائے گا اور مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا جائے گا۔

امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ابو دیس کو فلسطین کا دارالحکومت بنائے جانے کی تجویز شہزادہ محمد بن سلمان نے پیش کی تھی۔

اخباری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو بعض مطالبات سے دست برداری پر مالی فواید فراہم کیے جائیں گے اور معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ غزہ کی پٹی کےعلاقے کو مصر کے جزیرہ نما سیناء تک وسیع کیا جائےگا۔ اس کے بدلے میں غرب اردن میں قائم کی گئی یہودی کالونیاں اپنی جگہ قائم رہیں گی۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور فلسطینی حکومت کے ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فلسطین کی اس نئی بندر بانٹ کی تصدیق کی۔ رپورٹ کے مطابق اس حیران کن تجویز پر امریکی  عہدیدار بھی ششدر رہ گئے اور انہوں نے اسے امریکی صدر کی’خدمت‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔

اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب اس منصوبے کا علم واشنگٹن میں امریکی عہدیداروں کو ہوا تو وہ اس پر برہم ہوئے اور کہا کہ سعودی ولی عہد کیسے امریکی صدر کی نیابت میں مشرق وسطیٰ کے لیے کوئی نیا فارمولہ پیش کرسکتے ہیں۔

بعض امریکی عہدیداروں نے اس فارمولے کوتشویش کی نگاہ سے دیکھا اور حکومت سے اس کی وضاحت مانگی ہے جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے مشیر نے سعودی امن فارمولے کو ’اسرائیل کا من پسند‘ فارمولہ قرار دیا اور کہا ہے کہ فلسطینی اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر محمود عباس کو مذکورہ منصوبے کو دو ماہ کے اندر اندر قبول کرنے کی مہلت دی اور کہا کہ اگر وہ اس منصوبے کو قبول نہیں کرتے تو استعفیٰ دیں اور گھر جائیں۔ امریکی اخبار نے بھی اس امن فارمولے کو اسرائیل کی طرف داری پر مبنی قرار دیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی