چهارشنبه 30/آوریل/2025

امریکا کی مجوزہ ’صدی کی ڈیل‘ اور امریکی شرائط!

پیر 27-نومبر-2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’صدی کی ڈیل‘ کے نام سے مجوزہ مشرق وسطیٰ امن پلان کی کی صرف بازگشت ہی سنائی دی تھی کہ اسرائیلی نائب وزیرخارجہ زیپی حوٹوبلی نےاسرائیل کےساتھ ممکنہ ڈیل کی شرائط بیان کردیں۔ اور ساتھ ہی یہ توقع بھی ظاہر کی  امریکا اسرائیل کی شرائط کو قبول کرے گا۔

اسرائیلی خاتون نائب وزیرخارجہ کی شرائط کو چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اول یہ کہ بحر متوسط سے دریائے اردن تک اسرائیل کے سوا کسی اور کی خود مختاری تسلیم نہیں کی جائے گی، دوم یہ کہ غرب اردن سے کسی یہودی کالونی کو خالی نہیں کیا جائے گا، سوم یہ کہ غیر منقسم بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا اور چہارم فلسطینی پناہ گزینوں کو واپس فلسطین میں آباد ہونے کی کوئی شرط تسلیم نہیں کی جائے گی۔

اگران چاروں شرایط پرعمل درآمد کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اور امریکا قضیہ فلسطین کا تصفیہ اور فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر فلسطینی علاقوں میں قائم کردہ یہودی بستیوں کو ختم نہیں کیا جاتا،بیت المقدس کو آزاد نہیں کیا جاتا اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جاتا فلسطینی ریاست کا کوئی وجود نہیں۔

اگر امریکا کی جانب سے بھی مجوزہ طورپر ’صدی کی ڈیل‘ کی تجویز ایسا کوئی فارمولا ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس ڈیل کے تحت  اسرائیل غرب اردن میں اپنی اجارہ داری کوتو سیع دینے کے ساتھ ایک ایسی بے دست و پا فلسطینی ریاست کو قبول کرے گا جو دفاع اور خارجہ تعلقات سے محروم ہوگی۔

سنہ 1993ء میں طے پائے معاہدے کے تحت غرب اردن کے سیکٹر A اور سیکٹر B میں فلسطینی اتھارٹی کو عارضی انتظامی اختیارات دیے گئے تھے۔ یہ دونوں سیکٹر غرب اردن کے کل رقبے کا 40 فیصد ہیں۔

جب کہ سیکٹر ’C‘ کے 60 علاقے پر صہیونی ریاست اسرائیلی ریاست کا انتظامی کنٹرول ہے۔ اس میں وادی اردن کا علاقہ بھی شامل ہے۔

شرائط نئی نہیں

اسرائیلی نائب وزیرخارجہ حوٹوفلی کی طرف سے شرائط نئی نہیں۔ اس طرح کی شرائط سابق وزیراعظم آئزک رابین کے دور سے پیش کی جا رہی ہیں۔

اسرائیلی سیاسی تجزیہ نگار انطوان شلحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ہمیشہ سنہ 1967ء کی حدود سے پیچھے ہٹنے کی مخالفت کی۔ بیت المقدس کی تقسیم کا انکار کیا، فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کو رد کیا اور وادی اردن کو صہیونی ریاست کے دفاع کی فرنٹ لائن قرار دیتا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شلحت کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے پیش کردہ ’صدی کی ڈیل‘ ابھی تک پردہ راز میں ہے۔ اب تک اس کے حوالے سے صرف افواہیں ہی سامنے آتی رہی  ہیں، مگر جو بھی تفصیلات سامنے آئیں وہ اسرائیلی شرائط کے قریب دکھائی دیتی ہیں۔

اسرائیل نے ہمیشہ یہ تاثر دیا کہ وہ فلسطینیوں سے مذاکرات یا قضیے کے حل کے لیے ایسی شرائط پیش کرے گا جو کم سے کم حد تک فلسطینیوں کے لیے قابل قبول ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب گیند امریکا کی کورٹ میں ہے، کیونکہ امریکا نےفلسطین۔ اسرائیل تنازع کے حل کے لیےنیا پلان پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسرائیل یا امریکا کی طرف سے کسی قسم کی شرائط قبل از وقت ہوں گی۔

حل میں تعاون یا روکاٹو کی پالیسی

اسرائیلی نائب وزیر خارجہ کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ معاملات کے حوالے سے شرائط قبل از وقت ہیں۔ حوٹوفلی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی حکام کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے تل ابیب کے عرب ممالک کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ ان میں سعودی عرب سر فہرست ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کی طرف سے قضیہ فلسطین کےحوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باوجود عرب ممالک کا اسرائیل کے قریب آنا خوش آئند ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار جہاد حرب کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ شرائط تنازع فلسطین کو جوں کا توں رکھنے، فلسطین میں یہودی آباد کاری کو جواز فراہم کرنے، امریکا کی طرف سے کسی بھی امن فارمولے کو چاہے اسے فلسطینی تسلیم کریں یا نہ کریں پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

ایک سوال کے جواب جہاد حرب نے شلحت کےبیان کی تائید کی اسرائیلی شرایط نئی نہیں۔ ماضی میں بھی صہیونی ریاست کی طرف سے ایسی ہی ناقابل قبول شرائط پیش کی جاتی رہی ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی