امریکی فضائیہ کے جنرل اور سٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ جوہری حملے کے کسی بھی غیرقانونی صدارتی حکم کی مزاحمت کریں گے۔
ایئرفورس جنرل جان ہیٹن نے کہا ہے کہ امریکی جنگی کمانڈ کے سربراہ کے طور پر وہ صدر کو مشورے فراہم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ انھیں اس کا قانونی متبادل تلاش کیا جائے گا۔
ان کا بیان چند روز قبل امریکی سینیٹروں کی جانب سے جوہری حملے کے متعلق صدارتی اختیارات پر غوروخوض کے بعد آيا ہے۔
بعض لوگوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیر ذمہ دارانہ طور پر اس قسم کے کسی حملے کا حکم دے سکتے ہیں۔
جبکہ بعض دوسرے سینیٹررز کا خیال تھا کہ صدر کو وکلا کی مداخلت کے بغیر یہ اختیار ضرور حاصل ہونا چاہیے۔ گذشتہ 40 سال سے زیادہ عرصے میں اس قسم کی یہ پہلی میٹنگ ہے۔
اگست میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا اپنے جوہری پروگرام کی توسیع کرتا رہتا ہے اور امریکہ کو دھمکیاں دیتا رہتا ہے تو وہ ‘ایسے غیض و غضب کا مظاہرہ کریں گے جسے دنیا نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔’
گذشتہ ماہ سینیٹ کی فارن ریلیشن کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین سینیٹر باب کورکر نے صدر ٹرمپ پر الزام لگایا تھا کہ وہ امریکہ کو ‘تیسری جنگ عظیم کے راستے پر ڈال رہے ہیں۔’
کینیڈا میں ہیلی فیکس بین الاقوامی سکیورٹی فورم سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ہیٹن نے کہا: ‘اِن چیزوں کے بارے میں ہم بہت سوچتے ہیں۔ جب آپ کے سر پر ذمہ داری ہوگی تو پھر آپ اس کے بارے میں کیسے نہیں سوچيں گے۔’
انھوں نے کہا: ‘میں صدر کو مشورہ دیتا ہوں، وہ مجھے بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے۔’
اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا: ‘اگر آپ کوئی غیر قانونی حکم پر عمل کرتے ہیں تو آپ جیل جائيں گے۔ آپ باقی ساری عمر کے لیے جیل جائيں گے۔’
خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے ابھی جنرل ہیٹن کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔