تقسیم فلسطین اورارض فلسطین کے جسد میں صہیونی ریاست ظالمانہ قیام کے حوالے سے انسانی تاریخ کے بدترین معاہدے‘اعلان بالفور‘ کو ایک سو سال ہورہے ہیں۔ نومبر 1917ء سے نومبر2017ء تک ایک سو سال کا سفر فلسطینی قوم کی مظلومیت، برطانوی استبدادی کی نا انصافی اور ایک قابض اور غاصب صہیونی ریاست کے قیام کی تاریخ کا سفر ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین اس نام نہاد اعلان بالفور کے صد سال مکمل ہونے پر خصوصی رپورٹس شائع کررہی رہا ہے۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت نے جس طرح آج سے ایک سوسال پہلے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرزمین فلسطین میں ناجائز صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا، اسی طرح آج بھی برطانوی حکومت اپنی اس ڈھٹائی پر قائم ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ برطانوی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ کیے گئے اس بدترین ظلم پر معافی مانگتے ہوئے فلسطینیوں کے سلب شدہ حقوق انہیں واپس کرنے کے لیے اپنا فریضہ انجام دیتی مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا ہرگز نہیں ہو رہا ہے۔ برطانوی حکومت نہ صرف فلسطینیوں سے معافی مانگنے سے گریزاں ہے بلکہ نام نہاد ’اعلان بالفور‘ کا صد سالہ جشن منانے کی تیاری کررہی ہے۔
اعلان بالفور کا جشن کیا ہے؟ یہ جشن دراصل فلسطینی قوم کے جذبات کے قتل عام کا جشن ہے۔ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق بالخصوص حق خود ارادیت کو دبانے کا جشن ہے۔ فلسطین میں ناجائز صہیونی ریاست کے قیام کے ظلم کا جشن ہے۔ ہزاروں فلسطینیوں کو بے رحمی کے ساتھ شہید کیے جانے پر خوش کا اظہار ہے۔ لاکھوں فلسطینی باشندوں کو ان کے ملک سے نکال باہر کرنے کی سفاکیت پر اظہار مسرت ہے اور ہزاروں فلسطینیوں کو جیلوں میں اذیتیں دینے کے پر خوشی کا اظہار کرنا ہے۔
عوامی محاذ کے رہ نما زاھر الششتری نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اعلان بالفور‘ برطانوی حکومت کی فلسطینی قوم سے دشمنی کا واضح ثبوت ہے اور آج جب برطانوی استبداد اس پر اظہار مسرت اور جشن منا رہی ہے تو یہ در حقیقت فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کو دہرانے کے ساتھ فلسطینی قوم سے کیے گئے وعدوں سے کھلم کھلا انحراف ہے۔ برطانوی حکومت اعلان بالفور کا جشن منا کر فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی خوشی اور اسرائیلی ریاست کو ایک نیا حوصلہ اور ولولہ تازہ دے رہی ہے‘۔
الششتری کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ معاہدہ بالفور کا جشن منا رہا ہے تو فلسطینی قوم کو علاقائی اور عالمی سطح پر اس کا جواب دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور پوری فلسطینی قوم کو برطانوی حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے برطانوی حکومت کے عالمی آئینی، عدالتی اور قانونی اداروں بالخصوص عالمی عدالت انصاف میں بائیکاٹ کرنا چاہیے، کیونکہ برطانوی حکومت نے نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے ایفا نہیں کیے بلکہ فلسطینیوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں پر خاموشی اور بعض مقامات پر صہیونی ریاست کے ساتھ کھلم کھلا تعاون کیا جاتا رہا ہے۔ فلسطین کو چاہیے کہ وہ برطانوی سامراج کے لگائے گئے اس کانٹے دار پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے عرب لیگ کے ساتھ مل کر برطانیہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔
فلسطینی تجزیہ نگار نصر ابو الجیش کا کہنا ہے کہ ’اعلان بالفور‘ فلسطینی قوم پر ظلم کی ایک مکروہ دستاویز ہے۔ یہ وہ دستاویز ہے جس میں ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کرنے، لاکھوں کو ملک بدر کرنے، ہزاروں کو جیلوں میں ڈالنے اور انہیں اذیتیں دینے، ان کے بنیادی حقوق کا استحصال کرنے، ان کے سماجی، انسانی اور قومی حقوق سلب کرنے کی راہ ہموار کی۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو جیش کا کہنا تھا کہ ’اگر برطانوی وزیراعظم تھریسا مے یہ کہتی ہیں کہ وہ اعلان بالفور کا جشن منانے کی تیاری کررہی ہیں تو وہ یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ برطانیہ فلسطینی بچوں کا قاتل ہے۔ اعلان بالفور کا جشن صرف فلسطینیوں کے قاتل منا سکتےہیں۔
فلسطینی دانشور کمال علاونہ کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا اعلان بالفور کی صد سالہ تقریبات کا جشن منانے کا اعلان کرتی ہے تو یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ برطانوی حکومت آج بھی بالعموم پوری عرب اور مسلم امہ بالخصوص فلسطینی قوم سے بغض وعناد رکھتی، فلسطینیوں سے دشمنی کا ثبوت دیتی اور نسل پرستی کی حمایت کرتی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ برطانوی حکومت کا فیصلہ موجودہ حکومت کی شرکی حمایت پرمبنی پالیسیوں کی حمایت کا اظہار ہے۔ برطانوی حکومت یہ ثابت کررہی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں میں اسرائیل کا دست و بازو ہے۔ فلسطینی قوم کے خلاف صہیونی ریاست کی جاری منظم ریاستی دہشت گردی اور فلسطینیوں کے حقوق کا استحصال برطانوی حکومت کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔