امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے ایک عہدیدار نے مقبوضہ بیت المقدس کو’عظیم تریروشلم‘ میں بدلنے کے لیے اسرائیلی پارلیمنٹ میں قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات میں بحالی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اقدامات کی تائید نہیں کی جا سکتی۔
خیال رہے کہ حال ہی میں اسرائیلی کابینہ نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی تھی جس میں غرب اردن میں قائم کی گئی کئی بڑی یہودی کالونیوں کو بیت المقدس میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسرائیل بڑی یہودی کالونیوں کو القدس میں شامل کرکے ’عظیم تر یروشلم‘ کے اپنے منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ القدس کو یک طرفہ طور پرتوسیع دینا یا اس کا نقشہ تبدیل کرنا فریقین کے درمیان جاری امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے غرب اردن کی بڑی یہودی کالونیوں کو القدس میں شامل کرنے سے متعلق قانون پر رائے شماری موخر کی ہے۔ دوسری طرف فلسطین بھر میں اسرائیل کے اس نام نہاد قانون کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے سربراہ ڈیوڈ بینن نے اتوار کے روز بتایا تھا کہ ’القدس الکبریٰ‘ منصوبے پر رائے شمالی موخر کردی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غرب اردن کے شمالی علاقوں کو القدس بلدیہ میں شامل کرنے کی تجویز سے امریکا کی ہم آہنگی ضروری ہے اور اس کے لیے حکومت عملی اقدامات کر رہی ہے۔
اسرائیلی اخبار ہارٹز‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت بیت المقدس سے باہر واقع دو بڑی یہودی کالونیوں ’غوش عتصیون‘ اور معالیہ ادومیم کو القدس میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
عبرانی اخبار کی ویب سائیٹ پر پوسٹ ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کی قانون سازی سے متعلق امور کی نگراں کمیٹی آئندہ اتوار کو ایک نئے مسودہ قانون پر رائے شماری کرے گی۔ اس قانون کے تحت غوش عتصیون اور معالیہ ادومیم دو بڑی یہودی کالونیوں کو القدس میں ضم کرنے پر رائے لی جائے گی۔
ویب سائیٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ کے رکن یواف کیش اور ٹرانسپورٹ و انٹیلی جنس کے وزیر یسرائیل کاٹز نے مشترکہ طور پر یہ نیا مسود قانون تیار کیا ہے۔ یہ دونوں شخصیات غوش عتصیون، معالیہ ادومیم، افرات، بیتار علیت اور گیوات زئیو کو القدس میں شامل کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کابینہ میں شامل کئی وزراء بڑی یہودی کالونیوں کو القدس میں ضم کرکے ’عظیم تر یروشلم‘ کے منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یوں وہ گرین لائن سے باہر واقع کالونیوں کو بھی القدس میں شامل کرکے اپنے اس مذموم منصوبے پرعمل پیرا ہیں۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ مسودہ قانون کی منظوری کے زیادہ امکانات ہیں کیونکہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بھی اس اسکیم کا حامی ہے۔