عالمی بنک کی جانب سے جاری کی گئی ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کے تسلسل میں معاشی خوش حالی ممکن نہیں۔ فلسطین میں معاشی ترقی اسرائیلی ریاست کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے سے ممکن ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق عالمی بنک کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2014ء کو غزہ کے علاقے میں اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے بعد وہاں پر معاشی ترقی کی رفتار بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ رواں سال [2017] کی پہلی شش ماہی میں فلسطین میں معاشی شرح نمو 0.7 فی صد رہی جب کہ بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا جس کے بعد یہ شرح 29 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غرب اردن اور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں کے نتیجے میں معاشی ترقی متاثر ہوئی۔ توقع ہے کہ آئندہ عرصے میں شرح نمو 3 فی صد تک پہنچے گی تاہم اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کوئی نئی کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں معاشی ترقی کا پہیہ پیچھے کی طرف گھوم سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کے منفی اثرات کا ایک بڑا نتیجہ بے روزگاری کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ غزہ جنگ کے بعد معاشی بدحالی نے نہ صرف شہریوں پر گہرے منفی معاشی اثرات مرتب کیے بلکہ ان کے نتیجے میں سماجی مسائل نے بھی جنم لیا۔
غزہ کی پٹی میں جنگی تباہ کاریوں کے بعد اسرائیلی پابندیوں کے باعث بحالی اور تعمیر نو کا عمل بھی متاثر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2015ء اور 2016ء کے عرصے میں معاشی ترقی 3.4 فی صد ریکارڈ کی گئی۔
فلسطینی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 29 فی صد ہے جس میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ غزہ کی پٹی میں بے روزگاری کی شرح 44 فی صد ہے جو کہ غرب اردن کے علاقوں کی نسبت دوگنا ہے۔ غزہ میں 15 سے 29 سال کی عمر کے 60 فی صد شہری بے روزگار ہیں۔