اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینی مصالحت اور قومی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے پیش کردہ سات شرائط مسترد کردی ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ فلسطینی مصالحت کو قبول کرنے کے لیے شرائط عاید کرنا فلسطین کے اندرونی معاملات میں اسرائیل کی کھلم کھلا مداخلت ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے سیاسی شعبے کے رکن عزت الرشق نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینی دھڑوں میں تشکیل پانے والی مصالحت صہیونی ریاست کے اندر چھپا خوف بے نقاب کردیا۔ فلسطینی اتھارٹی ، فلسطینی قومی حکومت اور مصالحت کو تسلیم کرنے لیے اسرائیلی شرایط صہیونی ریاست کے خوف کی عکاسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم مصالحت کو کامیاب بنا کر صہیونی ریاست کی شرائط کا جواب دے گی۔ تمام فلسطینی قوتوں نے صہیونی ریاست کے مظالم کے خلاف قومی اتحاد کو کامیاب بنانے کا عزم کررکھا ہے۔
ادھر حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی مصالحت پر اسرائیلی شرائط فلسطین کے اندرونی امور میں مداخلت ہے۔ اسرائیلی شرائط کا جواب فلسطینیوں میں اتحاد کو کامیاب بنا کر دیا جاسکتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کے ترجمان نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی دھڑوں میں طے پائے مصالحتی معاہدے کے رد عمل میں کہا ہے کہ قومی مصالحت بہت بڑا قومی مفاد ہے تاہم انہوں نے اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ شرائط کو مسترد کرنے کے بجائے صرف اتناکہا کہ انہیں ان شرائط پر ’تحفظات‘ ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینی دھڑے کسی دباؤ میں آئے بغیر قومی مصالحت کا عمل آگے بڑھاتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر محمود عباس کا موقف فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کو آگے بڑھانا اور قومی امنگوں کے مطابق آزادی کے حصول کے لیے قوم میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔
فلسطینی ایوان صدر کے ترجمان نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی مصالحت کو قبول کرنے کے لیے پیش کردہ سات شرائط پر کھل کر بات نہیں کی اور نہ ہی ان شرائط کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اسرائیلی شرائط پر انہیں تحفظات ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی زیرصدارت کابینہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ فلسطینی مفاہمت کو سات شرائط پوری ہونے کی صورت میں قبول کیا جاسکتا ہے۔ اول یہ کہ فلسطینی قومی اتحاد امریکا، روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر مشتمل گروپ چار کی شرائط تسلیم کرے، حماس ہتھیار پھینک دے، یرغمال بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کوغیر مشروط طورپر رہا کرے۔
غزہ کی پٹی میں فلسطینی اتھارٹی کو مکمل طور پر اختیارات سونپے، ایران سے تعلقات ختم کرے اور غرب اردن میں حماس کے عسکری ونگ کے ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو فری ہینڈ دیا جائے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی حکومت کے ترجمان اووی جندلمن نے کہا کہ فلسطینی مصالحت قبول کرنے اور فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے ہماری شرائط واضح ہیں۔ مذکورہ سات شرائط پوری ہونے کے بعد ہی اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت پرآمادہ ہو سکتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے علاقے میں امدادی سامان کی ترسیل صرف فلسطینی اتھارٹی کے متعلقہ حکام کے توسط سے کی جائے گی۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے فلسطینی دھڑوں حماس اور فتح کے درمیان مصر کی مساعی سے مصالحتی معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف سخت برہم ہے اور فلسطینیوں میں مفاہمت کی مساعی کو ناکام بنانے کے لیے آئے روز نئی شرایط عاید کررہا ہے۔