گذشتہ روز فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی اپیل پر مختلف مذہبی ، سیاسی جماعتوں اور ارکان پارلیمان پرمشتمل ایک اجلاس ہوا جس میں قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے مل کر کوششیں جاری رکھنے پراتفاق کیا گیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق کل جماعتی اجلاس میں حماس، اسلامی جہاد، تحریک فتح سمیت کئی دوسری جماعتوں کے مرکزی قایدین موجود تھے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ’قومی مفاہمت ایک تزویراتی فیصلہ جس سے انحراف یا واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ غزہ کی پٹی میں قومی حکومت کو اقتدار حوالے کرنے کی تقریب میں آئندہ ہفتے مصر کا ایک نمائندہ وفد بھی شرکت کرے گا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے امن مندوب کی شرکت بھی متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے لیے مصر کی طرف سے قابل ستائش کردار ادا کیا گیا ہے۔ اب یہ فلسطینی دھڑوں کے پاس بہترین اور تاریخی موقع ہے کہ وہ آپس میں متحد ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ مصری وفد کے دورہ غزہ کے بعد فلسطینی وفد قاہرہ کا ایک اور دورہ کرے گا۔ یہ دورہ قومی حکومت کے غزہ کی پٹی کے انتظامی امور کو سنھبالنے کے بعد ہوگا۔
حد درجہ لچک
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ان کی جماعت نے قومی مفاہمت کے قیام کے لیے مصر کا باربار دورہ کیا۔ ہم حقیقی معنوں میں مفاہمت کے معاملے میں پیش رفت چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے حماس کی قیادت نے پورے جذبے اور لچک کا مطاہرہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے لیے کوششوں پر پوری فلسطینی قوم خوش ہے۔ حماس نے قومی مفاہمت کے لیے پہل کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں اپنی نگرانی میں قائم کردہ انتظامی کمیٹی تحلیل کی۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ حماس نے مفاہمت کے لیے حد درجہ لچک دکھائی، انتظامی کمیٹی تحلیل کی اور غیر مشروط بات چیت پر آمادی کا اظہار کیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں پرمشتمل گرینڈ اجلاس سے دوسری جماعتون کے قایدین نے بھی خطاب کیا۔ تمام جماعتوں نے قومی مفاہمت کے لیے حماس کی مساعی کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وہ ملک میں اتحاد کی فضاء قائم کرنے کے لیے ہرممکن تعاون کے لیے تیار ہیں۔