اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے مرکزی رہ نما اور بیروت میں جماعت کے مندوب اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت نے قومی مفاہمت کی خاطر غیرمعمولی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت جلد قوم کو بتائیں گے کہ فلسطین میں مفاہمت کی راہ میں کون کون رکاوٹ رہا ہے۔
اسامہ حمدان نے ان خیالات کا اظہار ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مفاہمت کے لیے مصری حکومت نے غیرمعمولی مساعی کی ہیں، حماس اور پوری قوم قاہرہ کی مساعی کا خیرمقدم کرتی ہے۔انہوں نے کہاکہ قومی مفاہمت کو عملی شکل دینے کے لیے فلسطینی قوتوں نے کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ کئی سال کے تعطل کے بعد اب قومی مصالحت میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
اسامہ حمدان نے فلسطینی صدر محمود عباس پر زور دیا کہ وہ قومی مصالحت کے لیے حماس کے ساتھ مل کر کام کریں۔ حماس کی جانب سے غزہ کی پٹی میں انتظامی کمیٹی کے تحلیل کیے جانے کے بعد اب محمود عباس کو اقدامات کرنا ہوں گے۔
انتظامی کمیٹی کی تحلیل کے بعد کیا کرنا ہوگا؟
غزہ کی پٹی میں حماس کی جانب سے انتظامی کمیٹی کو تحلیل کیے جانے کے بعد آئندہ اقدامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اسامہ حمدان نے کہا کہ حماس نے مفاہمت کے لیے مصر کوششوں کے تحت مفاہمت کا عمل شروع کیا ہے۔ اگرغزہ کی پٹی میں مصالحت کا عمل ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو حماس غزہ میں اپنے فیصلوں کو تحفظ دینے کا بھی اختیار رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی انتظامی کمیٹی تحلیل کر دینے سے مصالحت کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ فلسطینی قوم کے بنیادی مفادات کا تحفظ قومی مفاہمت کی اساس ہے۔ فلسطینی قومی حکومت کو ’گڈ گورننس‘ کا ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ غزہ کے عوام کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں کما حقہ پوری کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم مصر سے تعلقات کے باب میں ایک نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہ مثبت مرحلہ ہے اور حماس کے مصر کے ساتھ تعلقات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ چاہے محمود عباس مفاہمت کا سنجیدگی سے جواب دیں یا نہ دیں حماس کے مصر کےساتھ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ محمود عباس کی جانب سے بھی مثبت رد عمل سامنے آیا ہے تاہم اگر وہ مثبت تعاون نہیں کرتے تب بھی حماس فلسطینی قوم کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دے گی۔
جماعتی قیادت میں ملاقات
اسامہ حمدان نے اسماعیل ھنیہ کی قیادت میں جماعت کےدورہ مصر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس دورے کا بنیادی مقصد غزہ کی پٹی کے عوام کو درپیش مشکلات اور ناکہ بندی ختم کرنا ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے گیارہ سال سے پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں کا خاتمہ اب ناگزیر ہوچکا ہے۔
توقع ہے کہ حماس اور مصر کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں غزہ کےمحاصرے میں کمی کا قوی امکان موجود ہے۔ توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں حماس اور مصر کےدرمیان دو طرفہ تعلقات میں مزید وسعت آئے گی اور دو طرفہ امور میں پیش رفت ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں اسامہ حمدان نے کہا کہ قاہرہ مذاکرات نے حماس کی اندرون اور بیرون ملک قیادت کو ملاقات کا بھی موقع ملا ہے۔
قاہرہ میں حماس کی اندرون اور بیرون ملک قیادت بھی جمع ہوئی۔ ایک سوال کے جواب میں اسامہ حمدان نے کہا کہ حماس کی قیادت نے مصری حکام کے ساتھ بات چیت میں اغواء کیے گئے چار فلسطینی شہریوں کے بارے میں بھی بات چیت کی گئی۔ مصری قیادت نےیقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس معاملے میں ہرممکن تعاون کریں گے۔
اسیران کا معاملہ
غزہ کی پٹی میں فلسطینی مجاھدین کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کی رہائی سے متعلق ہونے والی کوششوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مصر اور حماس مل کر اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے معاملے میں پیش رفت کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کے بدلے میں کسی بھی قسم کا معاہدہ صرف مصر کے ساتھ مربوط نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ جہت معاملہ ہے۔ جب تک اسرائیل اپنے فیصلوں میں ہٹ دھرمی پر قائم ہے اس وقت تک اس معاملے میں کسی پیش رفت کی توقع نہیں۔ حال ہی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کی ڈیلنگ کے لیے مقرر کردہ صہیونی عہدیدارنے محض اس لیے استعفیٰ دے دیا حکومت اس سلسلے میں لچک دکھانے کو تیار نہیں تھی۔
اسماعیل ھنیہ کا دورہ
ایک سوال کے جواب میں اسامہ حمدان نے کہا کہ آنے والے دنوں میں توقع ہے کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ عرب، مسلمان ملکوں کے ساتھ ساتھ عالمی دورے پر جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ طبعی طورپر حماس کا وفد جلد تہران کے دورے پر جائے گا۔ یہ وفد حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کی قیادت میں ہونا چاہیے۔ تاہم فی الحال اس دورے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جاسکتا۔ حماس کا بیرون ملک دورہ قضیہ فلسطین کی خدمت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں اسامہ حمدان نے کہا کہ ان کی جماعت کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔